اُصُولِ حدیث - Quran Majeed | Urdu | Syed Masood Ahmed (R.A.)

اُصُولِ حدیث

حدیث کی تعریف اور اس کی قسمیں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حدیث کے لغوی معنی ہیں: بات، خبر۔
شرعی اصطلاح میں حدیث: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔

قول کے معنٰی ہیں: کہنا، فرمانا۔ جس حدیث میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے کسی ”قول“ یا ”فرمان“ کو بیان کیا گیا ہو اسے ”قولی حدیث“کہتے ہیں۔

فعل کے معنی ہیں: کام۔ جس حدیث میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے کسی ”کام“ کا بیان ہو اسے ”فعلی حدیث“ کہتے ہیں۔

تقریر کے معنی ہیں : باقی رکھنا، برقرار رکھنا۔ جس حدیث میں کسی صحابیؓ کے ایسے۔ قول کا بیان ہو جسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ”سنا“، یا ایسے فعل کا بیان ہو، جسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ”دیکھا“ لیکن آپؐ نے نہ اس قول کی تردید کی اور نہ اس فعل سے منع کیا بلکہ اس قول یا فعل کو برقرار رکھا تو اس حدیث کو ”تقریری حدیث“ کہتے ہیں۔

حدیث کے اجزا :
حدیث کے اجزا :حدیث کے دو۲ اجزا ہوتے ہیں :۔

۱۔ اِسنَاد

۲۔ مَتَن

اِسنَاد

۱۔ اِسنَاد : اِسنَاد کے معنٰی ہیں سہارا لینا، ٹیک لگانا۔ اِسنَاد سے مراد راویوں کے نام کا وہ سلسلہ ہے جس کے سہارے حدیث کا ”مَتَن“ قائم رہتا ہے۔ اِسنَاد کو ”طَرِیْق“ یا ”سَنَد“ بھی کہتے ہیں۔
طریق کے معنٰی ہیں: وہ راستہ جو منزلِ مقصود یا مطلوب تک پہنچادے۔ راویوں کے نام کا وہ سلسلہ جو مطلوبہ حدیث کے مَتَن تک پہنچا دے اِسنَاد یا طَرِیْق کہلاتا ہے”سَنَد“ سہارے کو کہتے ہیں اس لحاظ سے سَنَد اور اِسنَاد ہم معنٰی ہیں، لہٰذا جو تعریف اِسنَاد کی ہے وہی سَنَد کی بھی ہے۔

مَتَن :

۲۔ مَتَن : مَتَن کے معنٰی ہیں کتاب کی اصل عبارت لہٰذا حدیث کی اصل عبارت کو حدیث کا ”مَتَن“ کہتے ہیں۔ مَتَن سلسلۂ سَنَد کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مثال :-

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوْسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَا لِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُ كُمُ الْجُمُعَةَ فَليَغْتَسِلْ (صحيح بخاری#۸۷۷)

اس حدیث میں خط کشیدہ عبارت اِسنَاد ہے اور بقیہ عبارت مَتَن ہے۔ اس حدیث میں چار۴ راوی ہیں : عبداللہ بِن یوسف، مالک، نافع اور عبد اللہ بِن عمرؓ، ناموں کا یہ سلسلہ مندرجہ بالا حدیث کی اِسنَاد ہے۔
ترجمہ:رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص (جمعہ کی نماز) کو آئے تو اسے چاہیے کہ غسل کرے۔
یہ عبارت مَتَن ہے یعنی مندرجہ بالا حدیث کی یہ اصل عبارت ہے جس کو سَنَدًا بیان کیا گیا ہے۔

اُصولِ حدیث کی غرض و غایت :
اُصولِ حدیث کی غرض و غایت : اُصولِ حدیث یا فنِّ حدیث اس اصول یا فن کا نام ہے۔ جس کے ذریعے کسی حدیث کے مَتَن اور سَنَد کو پرکھا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے کسی قول یا فعل یا تقریر کو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی طرف صحیح طور پر منسوب کیا گیا ہے یا نہیں۔
مَتَن کو پرکھنا :
مَتَن کو پرکھنا :حدیث کے مَتَن کو پرکھنے سے یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے جو الفاظ کہے تھے یا صحابیؓ نے رسول الله صلّی اللہ علیہ وسلّم کے متعلّق جو الفاظ ادا کیے تھے ان کی جانچ پڑتال کی جائے کہ وہ ہم تک صحیح طور پر پہنچے ہیں یا نہیں۔ الفاظ میں کچھ ردّ و بدل کمی یا بیشی تو نہیں ہوئی، کوئی ایسی خفیہ عِلّت یا وجہ تو نہیں جو مَتَن کو مشکوک بنا دے کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ کسی راوی نے نقل بالمعنی کی ہو یعنی بجائے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے الفاظ بیان کرنے کے اس کے معنی یا مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہو۔ اگر ایسی کوئی بات واقع ہوگی تو حدیث متناً ضعیف ہو جائے گی۔
سَنَد کو پرکھنا :
سَنَد کو پرکھنا : سَنَد یا اِسنَاد کے پرکھنے سے مراد یہ ہے کہ حدیث کے سلسلۂ سَنَد میں جو راوی ہیں ان کو دیکھا جائے کہ وہ معتبر ہیں یا غیر معتبر، ہر راوی اپنے استاد سے ملا ہے یا نہیں۔ اگر ملا ہے تو کیا اس سے براہِ راست حدیث سُنی ہے یا نہیں۔
معتبر راوی کو ثقہ یا عادل کہتے ہیں۔
غیر معتبر راوی کو ضعیف کہتے ہیں۔
راوی کی ثقاہت :
راوی کی ثقاہت : راوی کی ثقاہت کے سلسلے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ سچّا ہے یا جھوٹا، اگر سچّا ہے تو قوّی الحافظہ ہے یا ضعیف الحافظہ، اگر قوّی الحافظہ ہے تو کیا ساری عمر وہ قوّی الحافظہ ہی رہا یا بعد میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا، اگر بعد میں حافظہ خراب ہو گیا تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے حدیث زیرِ مطالعہ کو حافظہ خراب ہونے سے پہلے بیان کیا تھا یا بعد میں، مجہولُ الحال تھا یا معروفُ الحال، اپنے استاد سے اس کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں، اس کے عقائد خالصتًا اسلامی تھے یا غیر اسلامی، اس کا تعلّق کسی خاص فرقے سے تھا یا نہیں، وہ کسی بدعت کا موجد تو نہیں تھا، وہ کسی بدعت پر عمل کرتا تھا یا نہیں، وہ باعمل تھا یا نہیں، اس کے اعمال سنّت کے مطابق تھے یا نہیں، غرض یہ کہ اگر اس میں تمام خوبیاں موجود ہوں تو وہ ثقہ ہو گا۔ اگر اس میں تمام خوبیاں موجود نہ ہوں تو وہ ضعیف ہو گا۔
سلسلۂ سَنَد کے اگر تمام راوی ثقہ ہوں اور ہر راوی نے اپنے استاد سے سُن کر حدیث روایت کی ہو تو ان کی بیان کردہ حدیث صحیح ہوگی۔ اگر سلسلۂ سَنَد میں ایک راوی بھی ضعیف ہو تو اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوگی۔
جرح و تعدیل :
جرح و تعدیل : راوی کی ”ثقاہت“ یا ”ضُعف“ کی جانچ پڑتال کرنے کو ”جرح و تعدیل“ کہتے ہیں کسی راوی کے عیب کو ظاہر کرنا ”جرح“ کہلاتا ہے اورکسی راوی کو عیب سے پاک قرار دینا ”تعدیل“ کہلاتا ہے۔
جرح کی قسمیں:
جرح کی قسمیں: جرح کی دو۲ قسمیں ہیں:

۱۔ جرح مُفَسَّر

۲۔ جرح غير مُفَسَّر

جرح مُفَسَّر
۱۔ جرح مُفَسَّر: اگر کسی راوی پر جرح کرتے وقت یہ بتایا جائے کہ وہ کیوں ضعیف ہے، اس میں کیا عیب ہے تو اس جرح کو جرح مفسّر کہتے ہیں۔
جرح غير مُفَسَّر:
۲۔ جرح غير مُفَسَّر: اگر کسی راوی پر جرح کرتے وقت یہ نہ بتایا جائے کہ وہ راوی کیوں ضعیف ہے تو وہ جرح غیر مفسّر ہوگی۔
ضُعفِ یقینی اور غیر یقینی:
ضُعفِ یقینی اور غیر یقینی: اگر جرح مفسّر ہو تو راوی یقیناً ضعیف ہو گا سوائے اس صُورت کے کہ جرح کرنے والے کو غلط فہمی ہوگئی ہو۔ اگر جرح غیر مُفَسَّر ہو تب بھی راوی مشکوک ضرور ہوگا۔ اس میں کسی نہ کسی فنّی عیب کا گمان کیا جائے گا اور اس کی روایت کردہ حدیث یقینی نہیں رہے گی۔
اقسامِ حدیث بلحاظ تعدادِ اسانید :
اقسامِ حدیث بلحاظ تعدادِ اسانید : سَندوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کی دو۲ قسمیں ہیں :-

۱۔ مُتواتَر

۲۔ احاد

۱۔ متواتر: متواتر حدیث وہ حدیث ہے جس کی سندیں کثرت سے ہوں۔

۲۔ احاد: احاد حدیث وہ حدیث ہے جس کی سندیں کثرت سے نہ ہوں (یعنی جو حدیث متواتر نہ ہو وہ احاد ہوگی)۔

خبر احاد کی قسمیں:
خبر احاد کی قسمیں: خبر احاد کی تین۳ قسمیں ہیں :۔
۱۔ مشہور

۲۔ عزیز

۳۔ غریب

۱۔مشہور: مشہور حدیث وہ حدیث ہے، جس کی سَنَد کے ہر طبقے میں دو۲ سے زائد راوی ہوں۔

۲۔ عزیز: عزیز حدیث وہ حدیث ہے جس کی سَنَد کے ہر طبقے میں کم از کم دو۲ راوی ہوں۔ ہرطبقے میں دو۲ سے زیادہ راوی نہ ہوں ورنہ وہ حدیث مشہور بن جائے گی۔

۳۔ غریب : غریب حدیث وہ حدیث ہے جس کی اِسنَاد کے کسی طبقہ میں ایک ہی راوی رہ جائے۔
مندرجہ بالا تینوں اقسام کی ہر حدیث کو خبرِ واحد کہتے ہیں۔

خبرِ واحد: خبرِ واحد سے بشرط یہ کہ اس کی سند صحیح ہو اور خبر متواتر سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔
سَنَدوں کی زیادتی سے اطمینان اور یقین کی قوّت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ضُعفِ حدیث کی قسمیں :
ضُعفِ حدیث کی قسمیں :۔ ضُعفِ حدیث کی دو۲ قسمیں ہیں۔

۱۔ مَتَن میں ضُعف
۲۔ سَنَد میں ضُعف

ضُعفِ مَتَن کی قسمیں
مَتَن میں ضُعف کی کئی قسمیں ہیں مثلاً:

۱۔ عِلَّت

۲۔ اِضطراب

۳۔ شُذُوذ

۴۔ اِدْرَاج

۵۔ قلب

۶۔ روایت بالمعنی

۱۔ عِلَّت : حدیث میں کسی مخفی عیب کا پایا جانا عِلّت کہلاتا ہے مثلاً کسی راوی کو وہم ہوگیا اس نے حدیث کے الفاظ کو غلط نقل کر دیا یا ایک حدیث کے مَتَن کو دوسری حدیث کے مَتَن میں داخل کر دیا۔
عِلّت کا معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور یہ علمِ حدیث کے تمام فنون میں سب سے زیادہ دقیق ہے۔
جس حدیث میں عِلّت ہو اسے مُعَلَّل کہتے ہیں۔

۲۔ اِضطراب : کسی حدیث کی مختلف سَنَدوں میں مَتَن کے مختلف الفاظ نقل کیے گئے ہوں تو اس خرابی کو اِضطراب کہیں گے اور حدیث کو مضطربُ المتن کہا جائے گا۔

۳۔ شُذُوذ : راوی کا ثقات یا اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرنا شُذُوذ کہلاتا ہے یعنی کوئی راوی متنِ حدیث میں کوئی ایسی بات بیان کرے جو دوسرے ثقہ راویوں کے بیان کردہ مَتَن کے خلاف ہو یا اس سے زیادہ ثقہ راوی کے بیان کردہ مَتَن کے خلاف ہو، تو ایسی روایت کو شاز کہتے ہیں۔

۴۔ اِدْرَاج : کسی راوی کا ذاتی قول اگر حدیث کے مَتَن میں شامل ہو جائے تو اسے اِدراج کہتے ہیں اور ایسی حدیث کو مُدْرَج المتن کہتے ہیں۔

۵۔ قلب: مَتَن میں اُلٹ پلٹ ہو جانے کو قَلْب کہتے ہیں، قَلْب سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ کوئی لفظ آنا چاہیے تھا وہاں دوسرا لفظ آجائے اور اس دوسرے لفظ کی جگہ پہلا لفظ آجائے مثلاً ”سیدھا” کی جگہ ”الٹا“ اور ”الٹا“ کی جگہ ”سیدھا” آجائے۔

۶۔ روایت بالمعنی : روایت بالمعنی سے مراد یہ ہے کہ راوی کسی حدیث کے اصل الفاظ نقل کرنے کے بجائے اس حدیث کا مفہوم اپنے لفظوں میں بیان کر دے۔ یہ چیز صحیح نہیں اس لیے کہ بہت ممکن ہے راوی نے حدیث کے مَتَن کا مطلب غلط سمجھا ہو، اصل مطلب کچھ اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کے اصل الفاظ کی حفاظت پر پورا زور دیا جاتا ہے۔ فنِّ حدیث کی اصل غرض و غایت الفاظِ حدیث کی حفاظت ہے۔

ضعیفِ سند کی قسمیں
ضعیفِ سند کی قسمیں: بلحاظِ سَنَد بھی ضعیف حدیث کی کئی قسمیں ہیں۔مثلاً

۱۔ موضوع : اگر راوی جھوٹا ہے یا حدیث وضع کرتا ہے تو اس کی روایت کردہ حدیث ”مَوْضُوْع“ یعنی جعلی ہوگی۔

۲۔ متروک : اگر راوی پر جھوٹ کی تہمت ہو تو اس کی روایت کردہ حدیث ”مَتْرُوک“ ہوگی۔

۳۔ مُنکَر : اگر راوی سے بکثرت غلطی صادر ہو یا کثرت سے غفلت یا نسیان کا شکار ہو یا اس کا فِسق ظاہر ہو تو اس کی روایت کو مُنکَر کہا جاتا ہے۔ مزید برآں اگر دو۲ روایتیں ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو ان میں سے جس روایت کو ترجیح دی جائے گی اُسے معروف کہیں گے اور جس کو ترجیح نہیں دی جائے گی یعنی جس کو قبول نہیں کیا جائے گا وہ روایت مُنکَر کہلائے گی۔

۴۔ مُنقَطَع : اگر راوی اپنے استاد سے نہیں ملا تو اس کی روایت کردہ حدیث کی سند مُنقَطَع ہوگی یعنی وہ حدیث جس کی سند میں درمیان سے ایک راوی چھوٹ جائے یا متفرّق مقامات سے دو۲ یا دو۲ سے زیادہ راوی چھوٹ جائیں تو اس حدیث کی سند مُنقَطع کہلائے گی اور وہ حدیث مُنقَطع السند کہلائے گی۔

۵۔ مُعضَّل : جس حدیث کی سند میں دو۲ یا دو۲ سے زیادہ راوی ایک ہی جگہ سے چھوٹ جائیں تو وہ حدیث مُعضَّل کھلاتی ہے۔

۶۔ مُرْسَل : جس حدیث میں تابعی نے صحابیؓ کا نام نہ لیا ہو وہ مُرْسَل کہلاتی ہے۔ مُرْسَل کو ضعیف اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہت ممکن ہے تابعی نے کسی دوسرے تابعی سے سنا ہو اور تابعی ضعیف بھی ہوتا ہے اور ثقہ بھی، بلکہ بعض احادیث ایسی بھی ہیں جن میں کئی کئی تابعی ہیں ایسی صُورت میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جن تابعیوں کے نام تابعی راوی نے لیے وہ کیسے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے ان میں سے بعض کذّاب ہوں۔
تمام صحابہؓ عادل اور ثقہ مانے جاتے ہیں لہٰذا کسی صحابیؓ کا نام نہ ہونے سے روایت ضعیف نہیں ہوتی۔ اس کے ضُعف کی وجہ وہی ہوتی ہے جو اوپر بیان کی گئی۔

۷۔ مُعَلَّل : اگر راوی سَنَد میں گڑ بڑ کر دے، ایک حدیث کی سَنَد دوسری حدیث میں داخل کر دے یا مرسل، منقطع وغیرہ کو موصول کر دے تو وہ حدیث سندًا مُعَلَّل ہوگی۔

۸۔ مجہول کی روایت : اگر راوی مجہول ہے یعنی پہنچانا نہیں جاتا تو اس کی روایت کردہ حدیث ضعیف ہوگی۔

مجہول کی قسمیں
مجہول کی قسمیں : مجہول کی دو۲ قسمیں ہیں:

۱۔ مجہولُ الحال
۲۔ مجہولُ العين

۱۔ مجہولُ الحال : مجہولُ الحال وہ راوی ہے جس کا حال معلوم نہ ہو، جس کو کوئی پہچانتا نہ ہو۔ ایسے راوی کے متعلّق ثقاہت کا ضُعف کا فیصلہ نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کی روایت کردہ حدیث ضعیف ہوگی۔
مجہولُ الحال کی ایک خاص قسم ”مَسْتُور“ ہے۔ اگر مجہولُ الحال راوی کا نام فنِّ جَرَح و تَعْدِیل کے کسی امام نے اپنی کتاب میں ذِکر کیا ہو لیکن نہ اسے ثقہ کہا ہو اور نہ ضعیف تو ایسے راوی کو ”مَسْتُور“ کہتے ہیں۔
اگر دو۲ یا دو۲ سے زیادہ اشخاص کسی راوی سے روایت کریں لیکن اس کی توثیق کسی نے نہ کی ہو تو وہ راوی ” مَسْتُور“ کہلائے گا۔

۲۔ مجہولُ العین : اگر راوی کا نام تو معلوم ہو لیکن اس سے روایت کرنے والا صرف ایک ہی شخص ہو تو وہ راوی ”مجہولُ العین“ کہلائے گا۔
اگر کسی راوی سے دو۲ یا دو۲ سے زیادہ اشخاص روایت کریں تو وہ راوی مجہولُ العین نہیں رہے گا۔ مجہولُ العین نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ثقہ ہو۔ ضُعف کے دوسرے اسباب ہو سکتے ہیں۔
اگر کسی راوی سے صرف ایک ہی شخص روایت کرے لیکن اس روایت کرنے والے کے علاوہ کوئی اور شخص اس کی توثیق کرے تو ایسی صُورت میں بھی وہ راوی ” مجہولُ العین“ نہیں ہو گا۔

۹۔ مقلوبُ السند : مَتَن کی طرح سَنَد میں بھی قلب ہو جاتا ہے مثلاً بیٹے کی جگہ باپ کا نام لے دیا جائے اور باپ کی جگہ بیٹے کا نام لے دیا جائے۔ اس طرح سَنَدَ میں ایک قسم کا عیب پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسی حدیث ” مقلوبُ السند“ کہلاتی ہے۔

۱۰۔ مُضْطرب السند : مَتَن کی طرح اِضطراب سَنَد میں بھی ہوتا ہے۔ راویوں کے نام بدل جائیں یا کسی راوی سے کسی حدیث کی کئی سندیں بیان کی جائیں۔ ان سندوں میں اختلاف ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کونسی سَنَد صحیح ہے اور کونسی غلط ہے تو ایسی سَنَد کو مُضْطَرب کہتے ہیں اور حدیث ”مُضْطرب السند“ کہلاتی ہے۔

۱۱۔ مُصَحَّف : اگر کسی راوی کے نام کے حروف میں سے نقطے اٹھا دیے جائیں یا نقطوں کی تعداد میں کمی بیشی کر دی جائے یا ان کی جگہ میں تبدیلی کردی تو اس نام کو مُصَحَّف کہا جاتا ہے۔ مثلاً شریح کو سریح کر دیا جائے یا ثاقب کو تاقِب کر دیا جائے یا خالد کو جالد کر دیا جائے۔

۱۲۔ مُحَرّف : اگر کسی راوی کے نام میں ایسی تبدیلی کر دی جائے کہ نام کی شکل ہی بدل جائے تو ایسے نام کو مُحَرّف کہتے ہیں مثلاً: جابر کو جبیر کر دیا جائے تو جبیر محرّف ہو گا۔

تَدلِیس

تدلیس کے معنی ہیں: ”اپنے سامان کے عیب کو چُھپانا“۔ اپنے سامان کا عیب چُھپا کر بیچنا یقیناً خریدار کو دھوکا دینا ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
اُصولِ حدیث میں حدیث کے عیب کو چُھپانا تدلیس کہلاتا ہے۔ اگر کوئی راوی حدیث کی روایت کرتے وقت اپنے استاد کا نام نہ لے بلکہ اس سے اوپر کے راوی یعنی استاد کے استاد کا نام لے اور لفظ ایسا اختیار کرے جن سے استاد کے استاد سے اس حدیث کے سننے کا احتمال ہو تو یہ فعل تدلیس کہلاتا ہے۔ مدلّس وہ راوی ہے جو حدیث کو بیان کر کے یہ تاثر دے کہ اس نے اس راوی سے جن کا اس نے نام لیا ہے سنا ہے حالاں کہ سنا نہ ہو۔
تدلیس کے دو۲ ہی سبب ہو سکتے ہیں:
۱۔ فریب دینا اور ۲۔ لاپرواہی۔
اگر کوئی راوی اپنے استاد کے نام کو اس لیے چُھپاتا ہے کہ وہ کذّاب یا نا قابلِ اعتبار ہے تو یہ بہت بڑا جرم ہے اور یہ سامان فروش کا اپنے سامان کے عیب کو چُھپا کر بیچنے سے زیادہ قبیح ہے اس لیے کہ سامان فروش اپنے سامان کے عیب کو چُھپا کر صرف خریدار کو دھوکا دیتا ہے لیکن اگر کوئی راوی کسی حدیث کے عیب کو چُھپاتا ہے تو وہ پوری امّت کو دھوکا دیتا ہے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں:

مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا(صحيح مسلم#۲۸۳)
جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں
جب سامانِ تجارت کو فروخت کرانے کے سلسے میں اگر کوئی شخص دھوکا دیتا ہے تو حدیث مذکورۂ بالا کی رُو سے وہ جماعت المسلمین سے خارج ہو جاتا ہے تو جو شخص دین کے معاملے میں پوری امّت کو دھوکا دے وہ کتنا بڑا مجرم ہوگا۔ ایسا شخص ہرگز امام یا محدّث نہیں ہوگا بلکہ بہت بڑا دھوکے باز ہو گا اور حدیثِ مذکورہ بالا کی روشنی میں جماعت المسلمین سے خارج سمجھا جائے گا۔ مدلّس راوی نے خواہ وہ امام یا محدّث ہی کیوں نہ کہلاتا ہو اپنے استاد کا نام چُھپا کر اتنا بڑا جرم کیا ہے کہ الامان الحفیظ۔ اب وہ حدیث اس استاد کی وجہ سے جس کا نام چُھپایا گیا ہے ضعیف نہیں ہو گی بلکہ اس نام نہاد امام یا محدّث کی وجہ سے ضعیف ہوگی۔ اس نام نہاد امام یا محدّث کو دھوکے باز کذّاب کہا جائے گا۔ علما اب تک اس راوی کی وجہ سے جس کا نام چُھپایا گیا مدلّس کی روایت کو ضعیف سمجھتے رہے لیکن اس دھوکے باز کذّاب کو امام یا محدّث ہی کہتے رہے۔ انھوں نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کی کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا ان سے کیا کہلوایا جا رہا ہے۔ افسوس تقلید نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ امام شعبہؒ فرماتے ہیں: تدلیس جھوٹ کا ہم پلّہ ہے۔

(علوم الحدیث مصنفہ ڈاکٹر صبحی صالح مترجم اردو صفحہ۲۲۰ بحوالہ الباعث الحثيث صفحہ۵۸)
امام عبدالرزاقؒ پر جب تدلیس کا الزام لگایا گیا تو کعبے سے لٹک کر کہنے لگے:
اے میرے ربّ، مجھے کیا ہوا؟ کیا میں کذّاب ہوں؟ کیا میں مدلّس ہوں؟

(طبقات المدلّسين لابن حجرصفحہ۴۴)

حقیقت یہ ہے کہ تدلیس جھوٹ سے بھی بدتر ہے۔ اگر مدلّس راوی نے کسی کذّاب کے نام کو چُھپایا تو گویا اس نے موضوع حدیث کو صحیح باور کرایا یعنی جو چیز شریعتِ اسلامیہ میں نہیں تھی اس کو دھوکا دے کر شریعتِ اسلامیہ میں داخل کردیا گویا اس راوی نے دین سازی کی، شریعت سازی کی اور شریعت سازی، کیوں کہ بہت بڑا شرک ہے۔ لہٰذا وہ مدلّس ایک بہت بڑے شرک کا مرتکب ہوا۔ اس نے شرک فی التشریع، شرک فی الشریعت یا شرک فی الدّین کا اِرتکاب کیا۔

علما پر تعجّب ہے کہ ایسے دھوکے باز مشرک کو امام مانتے ہیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ ایک شخص جو حدیث میں فریب دہی کا مجرم ہو، شریعت سازی کا مجرم ہو پھر بھی وہ امام ہو۔ ایک ہی شخص جو بہ یک وقت چور بھی ہو اور امام بھی ضرور حیرت انگیز ہے۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ جو شخص چور ہے وہ امام نہیں ہو سکتا اور جو شخص امام ہے وہ چور نہیں ہو سکتا۔ اماموں پر چوری، فریب دہی یعنی تدلیس کا الزام محض الزام ہے اور دشمنانِ اسلام کی سازش ہے کہ وہ ایک محدّثؒ کی طرف دوسرے محدّثؒ کے متعلّق تدلیس وغیرہ کے الزام کو منسوب کرتے ہیں گویا کسی امام یا محدّثؒ کو دشمنانِ اسلام خود چور یعنی مدلّس نہیں کہتے بلکہ اس کی تدلیس، چوری یا فریب ہی کے الزام کو کسی امامؒ کی طرف منسوب کر کے فنِّ حدیث کا بیڑا غرق کرنا چاہتے ہیں اور انکارِ حدیث کے لیے میدان ہموار کر کے دین کو بدلنا چاہتے ہیں۔ فنِّ حدیث اور محدّثینؒ کے خلاف یہ سازش بہت پرانی ہے۔ افسوس ہے کہ اکثر دھوکے میں آگئے اور ائمہؒ اور محدّثینؒ کی نسبت تدلیس کے الزام کو تسلیم کرتے رہے

اگر یہ کہا جائے کہ ائمہ یا محدّثینؒ چوری کی نیّت سے تدلیس نہیں کرتے بلکہ لاپرواہی سے ایسا کرتے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں۔ ایسے معاملے میں لاپرواہی کرنا جس معاملے میں لاپرواہی کرنے سے شریعت بدل جائے یا شریعت میں کمی بیشی ہو جائے بہت ہی بڑا جرم ہے۔ لاپرواہی خصوصاً ایسے معاملے میں لاپرواہی وہی کر سکتا ہے جو شریعت سازی کو کوئی اہمیّت نہ دیتا ہو اور اس چیز کی کسی امام یا محدّثؒ سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ مندرجہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ جو شخص امام ہوگا وہ مدلّس ہرگز نہیں ہو گا۔ علّامہ حمّاد بِن محمّد الانصاریؒ لکھتے ہیں :۔

ثانياً : مَنِ احْتَمَلَ الأَئِمَّةُ تَدْلِيسَهٗ وَخَرَّجُوْا لَهٗ فِي الصَّحِيْمِ وإِنْ لَمْ يُصَرِّحْ بِالسَّمَاعِ وَذٰلِكَ لِوَاحِدٍ مِنْ أَسْبَابِ ثَلَاثَةٍ:۔۱ ۔اِمَّا الِاِمَامَتِهٖ
(التدليس و اقسام مطبوعہ مع كتاب طبقات المدلسين صفحہ ۱۹)

دوسرے طبقے کے مدلّس وہ لوگ ہیں جن کی تدلیس کو ائمہ نے اٹھا دیا ہے اور ان سے (اپنی) صحیح میں حدیثیں روایت کی ہیں اگر چہ انہوں نے (استاد سے) سننے کی تصریح نہیں کی ہے اور اس کی وجہ تین۳ وجوہ میں سے ایک ہو سکتی ہے :۔
۱۔ اس کی امامت کی وجہ سے۔

علّامہ حمّاد بِن محمّد کے بیان سے ظاہر ہوا کہ اگر کوئی شخص امام ہے اور اس پر تدلیس کا شبہ یا الزام ہے تو اس کی تدلیس اس کی امامت کی وجہ سے کالعدم سمجھی جائے گی یعنی امام کے متعلّق یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ امام ہو کر تدلیس یعنی چوری کرے۔
مندرجہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ فنِّ تَدلیس بےحقیقت فن ہے۔ مزید برآں اگر کسی راوی کو مدلّس کہنے والا اس راوی کا ہمعصر نہ ہو تو یہ چیز اس فن کو مزید بے حقیقت بنادیتی ہے، کسی راوی کو مدلّس کہنے والا اس راوی کے انتقال کے صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے تو آخر وہ کس بنیاد پر اس کو مدلّس کہتا ہے۔ کیا وہ کوئی سَنَد پیش کرتا ہے۔ اگر وہ سَنَد پیش کرتا ہے تو کیا اس نے تحقیق کی کہ سَنَد کے آخری راوی نے اپنے استاد یا ہم عصر راوی کی چوری کو کیسے پکڑا۔ ظاہر ہے کہ چوری کرنے والا اپنی بدنیّتی کو خود کبھی ظاہر نہیں کر سکتا حتّٰی کہ اپنی لاپرواہی اور غفلت بھی کبھی ظاہر نہیں کرے گا اس لیے کہ اس صُورت میں بھی وہ محدّثین کے نزدیک ثقہ نہیں رہے گا اور یہ کوئی راوی نہیں چاہتا کہ اسے ضعیف یا ناقابلِ اعتبار سمجھا جائے۔ جب فریب دینے والا اپنے فریب کو ظاہر نہیں کرتا یا لاپرواہی کرنے والا اپنی لاپرواہی کو ظاہر نہیں کرتا تو دوسرے کو خواہ وہ اس کا شاگرد یا ہم عصر ہی کیوں نہ ہو کیسے معلوم ہوا کہ شیخ کی یا راوی کی نیّت اچّھی نہیں ہے۔ یہ سراسر غیب کا معاملہ ہے اور غیب کا علم سوائے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے کسی کو نہیں لہٰذا تدلیس کا فن کچھ نہیں بالکل بے حقیقت ہے۔
اگر تدلیس کا الزام لگانے والا کوئی سَنَد پیش نہیں کرتا تو اس کا الزام لایعنی اور کالعدم ہے۔
حدیث کا کوئی راوی نہ فریب دینے کی نیّت سے تدلیس کرتا ہے اور نہ لاپرواہی کی نیّت سے تدلیس کرتا ہے تو آخر پھر وہ تدلیس کرتا ہی کیوں ہے۔ فریب اور لاپرواہی کے علاوہ وہ کونسی چیز ہے جو اُسے تدلیس پر برانگیختہ کرتی ہے۔

خلاصہ مباحث تدلیس
مندرجہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ جن اشخاص کو ائمۂ دینؒ یا محدّثینؒ کہا گیا ہے وہ ہرگز مدلّس نہیں تھے ہم ائمۂ دینؒ یا محدّثینؒ کو مدلّس یعنی مفتری یا کذّاب نہیں مانتے ہم ائمۂ دینؒ یا محدّثینؒ پر تدلیس کا جو الزام لگایا گیا ہے اسے لغو اور لایعنی ثابت کر رہے ہیں یعنی ہم تدلیس کے الزام سے انہیں بری ثابت کر رہے ہیں۔ ہماری تحریر کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم ان ائمۂ دینؒ یا محدّثینؒ کو جن کو مدلّس کہا گیا ہے مفتری یا کذّاب کہنا یا کہلوانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں ہم تو ان کی طرف سے صفائی پیش کر کے اور ان کو تدلیس کے الزام سے بری ثابت کر کے ان کو امامؒ یا محدّثؒ ہی کے درجے پر رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد ان کو گرانا نہیں بلکہ گرنے سے بچانا ہے۔ اگر بالفرض کسی امامؒ یا محدّثؒ نے کسی راوی کے نام کو چھوڑ دیا تو اسے ہم اس امامؒ یا محدّثؒ کی بھول شمار کریں گے۔ اسے تدلیس نہیں کہیں گے اس لیے کہ تدلیس قصداً ہوتی ہے اور بدنیّتی سے ہوتی ہے۔ امامؒ یا محدّثؒ بد نیّت نہیں ہوتا۔
[urdu]جن اماموں پر تدلیس کا الزام لگایا گیا ہے ان کے نام درج ذیل ہیں :۔
امام حسن بصریؒ، امام الولید بِن مسلمؒ، امام سلیمان الاعمشؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام سفیان بِن عیینہؒ، امام قتادهؒ، امام مکحولؒ، امام جریر بِن حازمؒ، امام حفص بِن غیاثؒ، امام طاؤسؒ، امام عبد الله بِن زیدؒ، امام عبداللہ بِن وہبؒ، امام علی بِن عمر الدارقطنیؒ، امام مالکؒ، امام ہشام بِن عروهؒ، امام موسیٰ بِن عقبہؒ، امام یحییٰ بِن سعیدؒ، امام یزید بِن ہارونؒ، امام ابراہیم نخعیؒ، امام الحکم بِن عتیبہؒ، امام حمّاد بِن اسامہؒ، امام سعید بِن ابی عروبہؒ، امام سالم بِن ابی الجعدؒ، امام سلیمان بِن طرخانؒ، امام شریک بِن عبد اللهؒ، امام محمّد اسحاق بِن یسارؒ، امام شعیب بِن محمّدؒ، امام عبدالرزاقؒ، امام عمرو بِن شعیبؒ، امام محمّد بِن حازمؒ، امام یحییٰ بِن ابی کثیرؒ، امام حمید الطويلؒ، امام عبد الملک بِن جريجؒ، امام طلحہ بِن نافعؒ وغیره وغیره .
یہ فہرست بہت طویل ہے۔ کہاں تک لکھی جائے، تقریباً تمام اماموںؒ کو مدلّس بنا کر حدیث اور فنِّ حدیث کو بڑا نقصان پہنچایا گیا۔ فليبك على الاسلام من كان باكيا ہمارے نزدیک ان میں سے کوئی امامؒ مدلّس نہیں۔
انتباہ نمبر ۱ :
اگر اس تحریر سے پہلے کبھی ہم نے کسی حدیث کو کسی امام کی طرف منسوب کردہ تدلیس کی وجہ سے ضعیف کہا ہے تو وہ حدیث ہمارے نزدیک صحیح ہے بشرط یہ کہ
۱۔ وہ حدیث کسی اور وجہ سے ضعیف نہ ہو۔

یا

۲۔ اس امامؒ نے اس بات کی صراحت کردی ہو کہ اگر وہ کسی راوی سے قالَ یا عَن کہہ کر روایت کرے تو قاری یا سامع کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے اس راوی سے نہیں سنا بلکہ اس کے اور اس راوی کے درمیان ایک اور راوی ہے جس کا نام اس نے حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی خاطر چھوڑ دیا ہے اور اس اِسنادی عیب کو ظاہر کرنے کے لیے قالَ یا عَن کہا ہے۔ یہ تدلیس نہیں ہوگی اس لیے کہ تدلیس عیب چُھپانے کا نام ہے نہ کہ عیب ظاہر کرنے کا۔ مثلاً امام شعبہؒ نے اپنے استاد امام قتادہؒ کے متعلّق اس قسم کی عادت کا ذِکر کیا ہے لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام شعبہؒ کو امام قتادہؒ کی اس عادت کا علم کیسے ہوا۔ انہوں نے امام قتادہؒ سے ان کی اس عادت کا ذِکر خود سنا یا کسی دوسرے کے واسطے سے انہیں معلوم ہوا یا انہوں نے خود اندازہ لگایا۔ اگر خود سنا تو پھر بات صاف ہے یعنی ایسی صُورت میں حدیث ضعیف ہو جائے گی۔ اگر کسی واسطے سے سنا تو اس واسطے کی سَنَد معلوم کرنی ہوگی پھر اس حدیث کی صحت یا ضُعف کا علم ہوگا۔ اگر محض اندازے سے معلوم کیا تو اندازہ کا صحیح ہونا یقینی نہیں لہٰذا حدیث کی تضعیف میں تامل ہوگا۔

انتباہ نمبر ۲ :
کسی مدلّس کے متعلّق یہ کہنا کہ اگر وہ حَدَّثَنَا کہہ کر حدیث روایت کرے تو اس کی بیان کردہ حدیث صحیح ہوگی۔ یہ اصول صحیح نہیں اس لیے کہ مدلّس راوی کذّاب ہوتا ہے لہٰذا وہ عَنْ سے روایت کرے یا حَدَّثَنَا سے روایت کرے وہ کذّاب ہی رہے گا۔ اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف بلکہ موضوع ہوگی۔ یعنی مدلّس راوی کا نہ عنعنہ صحیح ہے اور نہ تحدیث۔
صحیح اور ضعیف:

صحیح اور ضعیف: حدیث کی تین۳ قسمیں ہیں :-

۱۔ صحیح

۲۔ حسن

۳۔ ضعیف

صحیح حدیث

صحیح حدیث وہ حدیث ہے جس میں سَنَد اور مَتَن کے لحاظ سے ان عیوب میں سے جن عیوب کا ذِکر گزشتہ صفحات میں کیا گیا ہے کوئی عیب نہ پایا جائے۔
صحیح حدیث کی دو۲ قسمیں ہیں :-
ا۔ صحیح لذاتہٖ

۲۔صحیح لغيرهٖ

ا۔ صحیح لذاتہٖ :- جو حدیث کسی عادل راوی کی روایت سے متصل سَنَد کے ساتھ بغیر کسی فنّی عیب کے صفاتِ قبولیّت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو اس حدیث کو صحیح لذاتہٖ کہتے ہیں یعنی اس حدیث کو جو اپنی ذاتی صفات کے لحاظ سے صحیح ہو اسے صحیح لذاتہٖ کہتے ہیں۔

۲۔صحیح لغيرهٖ :۔ جس حدیث میں صفاتِ قبولیّت بدرجہ اتم نہ پائی جائیں، کوئی کمی رہ جائے تو اگر اس کمی کی تلافی دیگر ذرائع سے ہو جائے مثلاً کثرتِ طرق سے اس کمی کا ازالہ ہو جائے تو وہ حدیث بھی صحیح ہوتی ہے لیکن اسے صحیح لغیرہٖ کہتے ہیں۔ اس قسم کی حدیث کو صحیح لغیرہٖ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لحاظ سے صحت کے اعلیٰ مرتبے پر نہیں پہنچتی بلکہ دوسرے خارجی ذرائع کی مدد سے اس مرتبے پر پہنچتی ہے۔

حسن حدیث

جس حدیث کی صحت اعلیٰ درجے کی نہ ہو، ضبطِ کامل کی کمی رہ جائے اور اس کمی کی تلافی بھی دوسرے ذرائع سے نہ ہو سکے لیکن صحت کے دوسرے شرائط موجود ہوں تو وہ حدیث حسن کہلاتی ہے۔

حسن حدیث کی بھی دو۲ قسمیں ہیں :-

ا۔ حسن لذاتہٖ

۲۔ حسن لغیرهٖ

ا۔ حسن لذاتہٖ : جس حدیث کو بغیر کسی توقّف کے اور بغیر کسی خارجی قرینے کے اس کے ذاتی اوصاف کی بنا پر مقبول مان لیا گیا ہو وہ حدیث حسن لذاتہٖ کہلاتی ہے۔
اگر حسن لذاتہٖ کے طرق بہ کثرت ہوں تو اسے صحیح لغیرہٖ بھی کہا جا سکتا ہے۔

۲۔ حسن لغیرهٖ : جس حدیث کو اس کے ذاتی اوصاف کے بنا پر قبول کرنے کے سلسلے میں توقّف کیا جائے لیکن خارج میں کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جو اس کی قبولیّت کو عدم قبولیّت پر ترجیح دے تو وہ حدیث حسن لغیرہٖ کہلاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو حدیث کسی خارجی ذریعے سے قوّت حاصل کر کے حسؔن بنے وہ حسن لغیرہٖ کہلاتی ہے۔

نوٹ : صحیح لذاتہٖ ، صحیح لغیرہٖ ، حسن لذاتہٖ اور حسن لغیرہٖ یہ چاروں اقسامِ حدیث مقبول ہوتے ہیں۔ ان پر عمل کرنا چاہیے۔

حَسن صحیح حدیث


اگر کسی محدّث کو کسی حدیث کے صحیح یا حسن کہنے میں تردّد ہوتا ہے یا اگر کسی حدیث کو کوئی محدّث حسن کہتاہے اور کوئی محدّث صحیح کہتا ہے تو اس حدیث کے متعلّق اس طرح لکھ دیتے ہیں
”حَسَنٌ اَوْ صَحِیْحٌ “، کثرتِ استعمال سے حرفِ عطف ” اَوْ “ چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور اب صرف اس طرح لکھ دیتے ہیں : حَسَنٌ صَحِیْحٌ
جو حدیث صحیح ہوتی ہے وہ حسن صحیح سے بلند درجے پر ہوتی ہے اس لیے کہ صحیح میں یقینی صحت پائی جاتی ہے برخلاف حسن صحیح کے، اس لیے کہ اس میں صحت کے لحاظ سے تردّد پایا جاتا ہے۔ اگر کسی حدیث کی دو۲ سندیں ہوں : ایک حسن اور ایک صحیح تو وہ صحیح حدیث سے جس کی سَنَد ایک ہو بلند تر مرتبہ پر ہوتی ہے۔ دو۲ سندوں نے اسے صحیح سے بالا تر کر دیا۔

حدیث کی تدوین

حدیث کی تدوین اور کتابت عہدِ رسالت سے لے کر محدّثین کے دور تک ہر زمانے میں ہوتی رہی خود رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے بعض کتا بچے لکھوائے متعدّد صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ طیبّہ میں بھی اور آپؐ کے انتقال کے بعد متعدّد صحیفے لکھے پھر تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے دور میں تو احادیث پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں۔

نوٹ : تدوینِ حدیث کے سلسلے میں تفصیل کے لیے ”بربان المسلمین“، ”تفہیم الاسلام بجواب دو اسلام“ شائع کردہ جماعت المسلمین اور ”الرسالہ المُسْتَطرفہ“ مؤلفہ محمّد بِن جعفرالکتانی شائع کردہ کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث پر جو کتابیں لکھی گئیں ان میں سے مندرجہ ذیل کتابیں بہت مشہور ہیں:۔

۱۔موطا امام مالک مؤلفہ مالک بِن انسؓ

۲۔مُسند امام شافعی مؤلفہ محمّد بِن ادریسؒ

۳۔مُسندا مام احمد مؤلفہ احمد بِن محمّد بِن حنبلؒ

۴۔صحیح بخاری مؤلفہ محمّد بِن اسمعیلؒ

۵۔صحیح مسلم مؤلفہ مسلؔم بِن الحجاجؒ

۶۔سُنن نسانی(صغریٰ) مؤلفہ احمد بِن شعیبؒ

۷۔سُنن ابی داود مؤلفہ سليمان بِن الاشعثؒ

۸۔جامع ترندی مؤلفہ محمّد بِن عیسیٰؒ

۹۔سُنن اِبن ماجہ مؤلفہ محمّد بِن یزیدؒ

احادیث کی وہ کتابیں جو زیادہ مشہور نہیں ہوئیں درج ذیل ہیں :۔

۱۔ سنن دارمی

۲۔ صحیح اِبن خزیمۃ

۳۔ صحیح اِبن حبان

۴۔ سُنن بیہقی کبریٰ

۵۔ مُستدرک حاکم

۶۔ طبرانی کبیر

۷۔ طبرانی اوسط

۸۔ طبرانی صغیر

۹۔ مُسند حمیدی

۱۰۔ مُسند ابی عوانہ

۱۱۔ منتقیٰ اِبن الجارود

۱۲۔ دارقطنی وغیره وغیره

کتبِ حدیث کے طبقات

کُتبِ حدیث کے پانچ۵ طبقات ہیں:-

پہلے طبقے میں: موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم شامل ہیں۔

دوسرے طبقے میں: نسائی، ابوداؤد اور ترمذی شامل ہیں۔

تیسرے طبقے میں: اِبن ماجہ، امام بیہقیؒ کی کتابیں، امام دارقطنیؒ کی کتابیں، مُسند امام احمد، مُسند امام شافعی، مُسند حمیدی وغیرہ شامل ہیں۔ حدیث کی زیادہ تر کتابیں اسی طبقے سے تعلّق رکھتی ہیں۔

چوتھے طبقے میں: فردوس دیلمی، اِبن ابی الدنیا وغیرہ شامل ہیں۔

پانچویں طبقے میں: واعظین، صوفیا اور میلاد خوانوں کی کتابیں شامل ہیں۔

طبقاتِ حدیث کی مختصر کیفیت

پہلے طبقے میں: زیادہ تر صحیح متصلِ مرفوع احادیث شامل ہیں۔

نوٹ : موطاء امام مالک کو عموماً کتب احادیث میں شمار کیا جاتا ہے حالاں کہ اس میں صحیح متصلِ مرفوع احادیث سے زیادہ فتوے شامل ہیں۔ اس لحاظ سے اسے کُتبِ فقہ میں شمار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
صحیح بخاری میں کثرت سے صحیح متصلِ مرفوع حدیثیں شامل ہیں صحیح مسلم میں صرف صحیح متصلِ مرفوع احادیث شامل ہیں۔ ان دونوں کتابوں کی متصلِ مرفوع احادیث غایت درجے کی صحیح ہیں ان کی صحت پر محدّثینؒ کا اتفاق ہے ان میں کوئی حدیث ضعیف نہیں ہے۔ ان دونوں کتابوں کو صحیحین کہا جاتا ہے۔

دوسرے طبقے میں: کثرت سے صحیح احادیث ہیں۔ کچھ حدیثیں ضعیف بھی ہیں۔ اس طبقے میں صحت کے لحاظ سے نسائی باقی دو۲ کُتب سے بہتر ہے۔

تیسرے طبقے میں: صحیح احادیث بھی ہیں اور ضعیف احادیث بھی ہیں۔ بعض موضوع بھی ہیں۔

چوتھے طبقے میں: زیادہ تر ضعیف احادیث شامل ہیں۔ اس طبقے میں بہت سی احادیث موضوع بھی ہیں۔

پانچویں طبقے میں: شاید ہی کوئی حدیث ضعیف ہو۔ سب الاماشاءاللہ موضوع ہیں۔

صحاح سِتّہ

صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی اور سنن ابنِ ماجہ کو صحاح سِتّہ کہا جاتا ہے یعنی صحیح احادیث کی چھ۶ کتابیں۔ یہ کتابیں اپنے مولفین تک متواتر ہیں۔ ان کتابوں کی صحیح احادیث کا مقابلہ دوسری کتابوں کی صحیح احادیث نہیں کر سکتیں اس لیے کہ دوسری کتابوں کو تواتر کا درجہ حاصل نہیں۔
صحیح حدیث کے مدارج

صحیح حدیث صحتِ اسناد و متن اور قبولیّت کے لحاظ سے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتی ہے۔ حسن حدیث صحت اور قبولیت کے لحاظ سے دوسرے درجے پر مانی جاتی ہے، پر صحیح حدیث کا درجہ حسن درجے سے زیادہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث حسن حدیث کے مقابلے میں زیادہ موجبِ یقین و اطمینان ہوتی ہے۔
صحیح حدیث کے بھی صحت کے لحاظ سے مختلف مدارج ہیں۔ ایک صحیح حدیث دوسری صحیح حدیث کے مقابلے میں زیادہ موجبِ یقین و اطمینان ہو سکتی ہے مثلاً اگر کوئی صحیح حدیث ایک ہی سَنَد سے مروی ہو تو وہ اس صحیح حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو دو۲ سندوں سے مروی ہو۔ دو۲ سندوں سے جو حدیث مروی ہوگی وہ زیادہ موجبِ یقین و اطمینان ہوگی۔ اسی طرح اگر سندوں کی تعداد بڑھتی جائے گی تو یقین اور اطمینان کی قوّت بھی بڑھتی جائے گی۔

نوٹ :۔ صحت کے مدارج اگرچہ مختلف ہوتے ہیں لیکن تمام صحیح احادیث عمل کے لحاظ سے یکساں ہوتی ہیں۔

صحت کے مدارج

صحت کے مدارج : صحت کے لحاظ سے حدیث کے مدارج بالترتیب درج ذیل ہیں،

(۱) وہ احادیث صحت کے اعلیٰ ترین درجہ میں ہیں جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہیں۔ دونوں میں ہوں ،

(۲) پھر وہ احادیث جو صرف صحیح بخاری میں ہوں ،

(۳) پھر وہ احادیث جو صرف صحیح مسلم میں ہوں،

(۴) پھر وہ احادیث جو صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے شرائط پر صحیح ہوں

(۵) پھر وہ احادیث جو صرف صحیح بخاری کے شرائط پر صحیح ہوں،

(۶) پھر وہ احادیث جو صرف صحیح مسلم کے شرائط پر صحیح ہوں،

(۷) پھر وہ احادیث جو مندرجہ بالا احادیث کے علاوہ ہوں اور جن کو صحیح تسلیم کر لیا گیا ہو۔

ثقہ کی زیادتی

اگر کسی مقبول روایت میں کسی ثقہ راوی نے کچھ ایسے زائد الفاظ روایت کیے ہوں جو اس حدیث کی دوسری سندوں کے متون میں نہیں پائے جاتے تو دیکھا جائے گا کہ ان زائد الفاظ اور دوسری روایتوں کے روایت کردہ الفاظ میں منافات (یعنی مخالفت) ہے یا نہیں۔
اگر منافات نہیں تو ان زائد الفاظ کو قبول کرلیا اور یہ سمجھا جائے گا کہ زائد الفاظ در اصل ایک مستقل حدیث ہے جس کا راوی صرف ایک ہے۔
اگر زائد الفاظ اور دوسری روایتوں کے منقول الفاظ میں منافات ہوگی تو پھر اسباب و قرائن کی تلاش کی جائے گی جن سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی جاسکے۔ راجح کو قبول کیا جائے گا اور مرجوح کو ردّ کر دیا جائے گا۔
اگر راجح قرار دینے کے اسباب و قرائن نہ مل سکے تو ان زائد الفاظ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
متابعت و شہاادت

اگر کسی روایت میں کسی محدّث سے روایت کرنے والے دو۲ راوی ہوں اور دونوں متن کی روایت میں ایک دوسرے کی تائید اور موافقت کرتے ہوں تو ایک کو دوسرے کا متابع کہا جائے گا اور یہ تائید اور موافقت متابعت کہلائے گا۔
اگر ایک راوی ضعیف ہو اور دوسرا ثقہ ہو تو اس ثقہ کی متابعت سے ضعیف راوی کی روایت کردہ حدیث بھی صحیح مانی جائے گی۔
اگر دونوں ضعیف ہوں گے تب بھی روایت میں تقویت پیدا ہو جائے گی بشرط یہ کہ ان میں سے کوئی بھی راوی کذّاب یا متروک نہ ہو۔ متابعت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ الفاظ میں کلیتہً مطابقت ہو بلکہ اگر دونوں روایتوں کا مفہوم یکساں ہو گا تو یہ بھی متابعت ہی ہوگی۔
الفاظ یکساں یا مفہوم یکساں ہو بہر حال متابعت اسی صُورت میں ہوگی کہ دونوں نے ایک ہی صحابیؓ سے روایت کیا ہو۔ اگر دونوں راوی ایک صحابیؓ سے روایت نہ کریں بلکہ علیٰحدہ علیٰحدہ صحابیوںؓ سے روایت کریں لیکن متن حدیث لفظی یا معنوی اعتبار سے ایک دوسرے کے مطابق ہو تو ایک حدیث کو دوسری حدیث کا شاہد کہیں گے اور اس موافقت کو شہادت کہیں گے (یہ موا فقت متابعت نہیں کہلائے گی)
مُحَکَم اور مختلف احادیث

مُحْکَم اور مختلَف: جو مقبول حدیث معارضہ سے سالم ہو یعنی جس کے مخالف کوئی دوسری مقبول حدیث نہ ہو تو اس حدیث کو مُحْکَم کہتے ہیں۔
جو مقبول حدیث معارضہ سے سالم نہ ہو یعنی جس کے مخالف کوئی دوسری مقبول حدیث پائی جائے تو اس حدیث کو مختلف کہتے ہیں۔
اگر کسی مقبول حدیث کے مخالف کوئی مردود (یعنی ضعیف) حدیث ہو گی تو مقبول پر عمل ہو گا۔ ضعیف حدیث ساقط کر دی جائے گی اور مقبول کو مُحْکَم تصوّر کیا جائے گا۔ اگر دو۲ مساوی مقبول احادیث میں تعارض (یعنی مخالفت) ہوگی تو کوئی تطبیق کی صُورت نکالی جائے گی یا قرائن و شواہد کے ذریعے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دی جائےگی یا ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ سمجھا جائے گا۔
سَنَد کے لحاظ سے احادیث کی قسمیں

سند کے لحاظ سے حدیث کی تین۳ قسمیں ہیں :-

۱۔ مرفوع

۲۔ موقوف

۳۔ مقطوع

مرفوع حدیث

۱۔ مرفوع حدیث : مرفوع وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا قول،فعل یا تقریر کا بیان ہو۔
مرفوع حدیث کی دو۲ قسمیں ہیں :-

۱۔صریح

۲۔حُکمی

صریح مرفوع:- صریح مرفوع حدیث وہ ہے جس میں صراحتاً ذِکر ہو کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فلاں کام کیا یا رسول اللہ صلّی علیہ وسلّم نے فلاں بات سُنی یا کسی کو فلاں کام کرتے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا۔
حُکمی مرفوع:- حُکمی مرفوع حدیث وہ ہے جس میں صراحتاً کسی قول یا فعل یا تقریر کو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی طرف منسوب نہ کیا گیا ہو مثلاً اگر کوئی صحابیؓ ایسی بات بیان کرے جو وہ بیان کر ہی نہیں سکتا جب تک اُسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے نہ بتایا ہو تو اس حدیث کو حُکماً مرفوع کہیں گے۔
اس مضمون میں غیب کی تمام باتیں آجاتی ہیں۔ کیوں کہ غیب کی خبریں سوائے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے دوسرا بیان نہیں کر سکتا لہٰذا اگر کسی صحابیؓ نے غیب کی خبر بیان کی اور اسے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی طرف منسوب نہیں کیا تاہم یہ سمجھا جائے گا کہ وہ حدیث مرفوع ہے لیکن حقیقتاً نہیں بلکہ حکماً یعنی اس حدیث پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ وہ مرفوع ہے بشرط یہ کہ وہ صحابیؓ اہلِ کتاب سے کوئی بات روایت نہ کرتا ہو۔

موقوف حدیث

موقوف حدیث: وہ حدیث ہے جس کی سَنَد کسی صحابیؓ تک پہنچ کر رُک جائے یعنی اس حدیث میں بیان کردہ قول یا فعل صحابیؓ کا قول یا فعل ہو۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا قول یا فعل نہ ہو۔
مقطوع حدیث

مقطوع: وہ روایت ہے جو کسی تابعیؒ یا تابعیؒ سے نیچے کے راوی پر پہنچ کر رُک جائے۔
عُلُوٌّ اور نُزُوْلٌ

عُلُوٌ : راویوں کی تعداد کی کمی کو عُلٌوٌ کہتے ہیں اور سَنَد کو عالی کہتے ہیں۔
نُزُوْلٌ : راویوں کی تعداد کی زیادتی کو نُزُوْلٌ کہتے ہیں اور سَنَد کو نازل کہتے ہیں۔
عُلُوٌّ اور نُزُوْلٌ کی قسمیں

علو اور نزول میں سے ہر ایک کی دو۲ دو۲ قسمیں (۱) مطلق (۲) نسبی۔
اگر کسی حدیث کے اسناد میں سے ایک سَنَد میں راویوں کی تعداد کم ہو تو راویوں کی تعداد کی کمی کو عُلُو مطلق کہتے ہیں۔ اگر کسی حدیث کے اسناد میں سے ایک سَنَد میں راویوں کی تعداد زیادہ ہو تو راویوں کی تعداد کی زیادتی کو نزول مطلق کہتے ہیں۔
اگر کسی حدیث کے راویوں کی تعداد اس امامِ حدیث تک کم ہو جس کی طرف اس حدیث کی نسبت ہے تو اسے علو نسبی کہتے ہیں اگر چہ اس امام سے آخر تک راویوں کی تعداد کثیر ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً : امام زہریؒ کی روایت اگر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم تک صرف دو۲ راویوں کے توسط سے پہنچتی ہے تو اس کو علو نسبی کہیں گے خواہ امام زہریؒ سے صاحبِ کتاب تک پانچ۵ راوی ہی کیوں نہ ہوں۔
اگر کسی حدیث کے راویوں کی تعداد اس امامِ حدیث تک زیادہ ہو جس امام کی طرف اس حدیث کی نسبت ہے تو اسے نزول نسبی کہتے ہیں اگرچہ اس امام سے آخر تک یعنی صاحبِ کتاب تک راویوں کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو۔
کیوں کہ ہر راوی کے متعلّق خطا کا گمان ہوتا ہے لہٰذا جس قدر بھی راویوں کی تعداد کم ہوگی خطا کا امکان بھی کم ہو گا اور جس قدر راویوں کی تعداد زیادہ ہوگی خطا کا امکان بھی زیادہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سَنَد عالی کو عمومًا سَنَد نازل پر ترجیح دی جاتی ہے یعنی اس حدیث پر یقین و اطمینان زیادہ ہوتا ہے جس کی سَنَد عالی ہو یہ نسبت اس حدیث کے جس کی سَنَد نازل ہو سوائے اس صُورت کے نازل کے راوی بمقابلہ عالی کے راویوں کے ثقاہت کے لحاظ سے بہت زیادہ بلند مقام پر فائز ہوں۔
سابق اور لاحق

سابق اور لاحق: اگر دو۲ راوی ایک ہی شخص سے کسی حدیث کو روایت کریں تو ان دونوں میں سے پہلے مرجانے والے کی حدیث کو سابق اور بعد میں مرجانے والے کی حدیث کو لاحق کہتے ہیں۔
مسلسل


مسلسل: اگر کسی حدیث کے تمام راوی یکساں الفاظ سے روایت کریں تو ایسی سَنَد کو مسلسل کہتے ہیں مثلاً: ہر راوی اس طرح کہے
سمعت فلاناً قال سمعت فلانًایا اس طرح کہے حدثنا فلان قال حدثنا فلانٌ۔

ادائے حدیث کے الفاظ

حدیث کو ادا کرنے یا بیان کرنے کے مختلف طریقے ہیں مثلاً

(۱) راوی کے
سُمِعْتُ (میں نے سنا)

حَدَّثَنِیْ (اس نے مجھ سے بیان کیا)

حَدَّثَنَا (اس نے ہم سے بیان کیا)

اَخْبَرْنِیْ (اس نے مجھے خبر دی)

اَخْبَرَنَا (اس نے ہیںد خبر دی)

اَنْبَأَنِیْ (اس نے مجھے خبر دی)

أَنْبَأَنَا (اس نے ہمیں خبر دی)۔


سُمِعْتُ
کے علاوہ مندرجہ بالاتمام جلواں میں فاعل راوی کا استاد ہے۔ یہ تمام جملے مَعَ سُمِعْتُ کے الفاظ حدیث کی روایت کے لیے یقینی ہیں ہر جملے سے یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے اپنے استاد سے سنا۔ یہ سب جملے یکساں مرتبے کے حامل ہیں۔

(۲)کبھی راوی اس طرح بھی کہتا ہے :
قَرَأْتُ عَلَيْهِ (میں نے استاد کے سامنے پڑھا) یا قُرِئَ عَلَيْهِ وَاَنَا اَسْمَعُ (اس کے سامنے پڑھا گیا اور میں سن رہا تھا)۔ یہ طریقہ الفاظ حدیث کی ادائے گی کے لیے دوسرے درجہ کا حامل ہے۔ الفاظ حدیث کے یقینی ہونے کے لحاظ سے یہ اتنا یقینی نہیں ہے جتنا پہلا طریقہ۔

(۳)کبھی راوی اس طرح کہتا ہے :
نَاوَلَنِیْ (اُس نے مجھے کوئی صحیفہ دیا، یاشَا فَهَنِیْ بِالْاِجَازَةِ (اس نے مجھے بالمشافہ روایت کرنے کی اجازت دی)۔ حدیث کے الفاظ کی ادائے گی کا یہ تیسرا درجہ ہے۔

(۴)کبھی راوی اس طرح کہتا ہے
كَتَبَ إِلَىَّ بِالْإِجَازَةِ (اس نے مجےف تحریری طور پر روایت کرنے کی اجازت دی)۔ الفاظ حدیث کی ادائے گی کا یہ چوتھا درجہ ہے۔

(۵)کبھی راوی اس طرح کہتا ہے
عَنْ فَلَانٍ (فلاں سے مروی ہے) یا قَالَ فُلَانٌ (اس نے کہا) یا ذَكَرَ فَلَانٌ (اس نے ذِکر کیا) یا رَوِیْ فُلَانٌ (فلاں نے روایت کیا)۔ مرتبہ کے لحاظ سے حدیث کے الفاظ کی ادائے گی کا یہ پانچواں درجہ ہے۔ اس طریقہ کو بھی عموماً سنےا ہی پر محمول کیا جاتا ہے۔

كتب اسماء الرجال

راویوں کے حالات اور ان کے متعلّق جرح و تعدیل کے سلسلے میں جو کتابیں لکھی گئیں انہیں کتب اسماء الرجال کہتے ہیں۔ ان کتابوں سے راویوں کے حالات، ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات، ان کے شیوخ اور تلامذہ، ان کے متعلّق ائمہ کی جرح و تعدیل، ان کے عقائد وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ ان کتابوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کونسا راوی ثقہ تھا اور کونسا ضعیف۔ اس فن پر متعدّد کتابیں لکھی گئیں۔
مشہور کتا ہیں درج ذیل ہیں :۔

(۱) تاریخ کبیر مؤلفہ امام محمّد بِن اسمعیل البخاریؒ۔

(۲) كتاب الجرح والتعديل مؤلفہ امام عبد الرحمن بِن محمّد بِن ادریس ابو محمّدبِن ابی حاتم الرازیؒ۔

(۳) الكامل في ضُعفاء الرجال مؤلفہ عبداللہ بِن عدى الجرجانیؒ۔

(۴) كتاب الكمال في اسماء الرجال مؤلفہ عبد الغني بِن عبد الواحد مقدسیؒ-

(۵) تہذیب الکمال فی اسماء الرجال مؤلفہ یوسف بِن الذكي المزیؒ۔ یہ کتاب عبد الغنی مقدسیؒ کی کتاب الکمال فی اسماء الرجال کی تہذیب ہے۔

(۶) میزان الاعتدال مؤلفہ محمّد بِن احمد الذہبیؒ ۔

(۷) تہذيب التہذيب مؤلفہ احمد بِن علی بِن حجر العسقلانیؒ۔ یہ کتاب یوسف المزیؒ کی تہذیب کی تہذیب ہے۔ ابن حجرؒ نے اصل کتاب کا مختصر خلاصہ بھی لکھا جو تقریب التہذیب کے نام سے مشہور ہے۔

(۸) لسان المیزان مؤلفہ احمد بِن علی حجر العسقلانیؒ۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔
فون ۴۴۰۷۵۲۴ فیکس ۴۵۰۷۳۰۵

Share This Surah, Choose Your Platform!