تاریخ الاسلام والمسلمین (صحابۂ کرامؓ)

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

صحابۂ کرامؓ کےفَضائِل و مناقبت

رسول الله صلّی اللہ علیہ سلّم کے بعد سیاست کے فرائض صحابہ کرامؓ نے انجام دیے یا ان کے منتخب کردہ یا منظور کردہ امیروں نے انجام دیے۔ صحابہ کرام ؓ کے فضائل لکھنے کی ضرورت صرف اس لیے محسوس نہیں ہوئی کہ عوام و خواص کو ان کے فضائل سے باخبر کیا جائے بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کہ عوام و خواص کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی جائے کہ جن لوگوں کے ایسے فضائل ہوں ان سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ سیاست کے میدان میں للّٰہیت کو چھوڑ کر دنیا دار اور مکّار بن جائیں گے۔ غیر اسلامی سیاست کو منظور کر لیں گے اور محض دنیوی مفاد کی خاطر یا بزدلی سے کلمہ حق کہنے سے گریز کریں گے اور کسی غیر شرعی حاکم اور اس کے غیر شرعی احکام پر خاموش تماشائی بن جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس میں خلوص اور للہیت کی فراوانی ہو، وہ لوگ جو ہر وقت رضائے الہٰی کے طالب رہتے ہوں جنھوں نے اپنے خون سے اسلام کی آبیاری کی ہو وہ کس طرح اپنی آنکھوں سے اسلام کی پامالی دیکھ کر خاموش رہ سکتے ہیں۔ یہ سب ہمارے دشمنوں اور نادان دوستوں کی کارستانی ہے کہ انھوں نے ہماری تاریخ میں صحابہ کرامؓ کے متعلّق ایسے واقعات شامل کردیے جن سے اس مقدّس جماعت کو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ واقعات قرآن مجید اور احادیثِ صحیحہ سے بھی متصادم ہیں لیکن پھر بھی وہ ہماری تاریخ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اصل واقعات پر پردہ ڈالا گیا، غلط اور جعلی واقعات کو اچھالا گیا اور ان کو اتنی شہرت دی گئی کہ اب کوئی بیچارہ تاریخ کے اوراق سے پردہ اُٹھا کر حقائق کو سامنے لاتا ہے تو وہ مورَدِ الزام ٹہرتا ہے۔ صدیوں سے جو واقعات ہماری رگ و پَے میں سرایت کر گئے ہیں ان کی قلعی کھولنا اور ان کا اِبطال کرنا بھی اب جرم بن گیا ہے کتنی بھولی ہے یہ قوم جو ایک طرف صحابہ کرامؓ کے فضائل کی بھی معترف ہے، ان کے خلوص کے گیت گاتی ہے تو دوسری طرف ان کے متعلّق دنیا داری اور مکّاری کے مخترعہ واقعات کو بھی صحیح تسلیم کرتی ہے۔ ہمارے متدیّن مؤرخین بھی بہت بھولے تھے جنھوں نے بغیر تحقیق و تنقید کے ان فرضی واقعات کو اپنی کتبِ تاریخ میں سمو دیا، انھیں کیا خبر تھی کہ جن واقعات کو محقّقین کے لیے جمع کر رہے ہیں تاکہ وہ ان کی تحقیق کر کے حق و باطِل کو علیحدہ کردیں وہی واقعات بے تحقیق و تنقید مستند سمجھے جائیں گے اور صحابہ کرامؓ کے کردار کو داغدار کیا جائے گا۔ دشمنوں کی چال یہ تھی کہ صحابہ کرامؓ کی مقدّس جماعت کو بدنام کریں اور اس طرح بالواسطہ وہ اس ہستی کو نشانہ بنائیں جس کی صحبت سے یہ جماعت تیّار ہوئی تھی۔ گویا وہ اس طرح نبوّت کی عمارت ہی کو منہدم کرنا چاہتے تھے اور جب نبوّت کی عمارت ہی منہدم ہو جائے تو پھر ظاہر ہے کہ نہ اسلام باقی رہے گا اور نہ مسلم، اور یھی ان کا اصل مقصد تھا۔ اگرچہ وہ اپنے مقصد میں پوری طرح تو کامیاب نہ ہو سکے لیکن ان کی سازشوں سے اتنا ضرور ہوا کہ مسلمین میں مختلف عقائد و افکار کا ظہور ہوا اور ایسے لوگ پیدا ہو گئے جو نام کے لحاظ سے تو مسلم تھے لیکن عقائد و اعمال کے لحاظ سے غیرمسلم، اِن دشمنوں کے دوش بدوش نادان دوستوں نے بھی غیر شعوری طور پر اسلام کو تباہ و بربادکرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، انھوں نے اس مثل کو سچ کر دکھایا ” نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے ” اب ہم صحابہ کرامؓ کے فضائل بیان کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

۱۔ وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّةَ الَيْڪُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ، أُوْلٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَنِعْمَةً، وَاللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ၀{۴۹۔ سُوۡرَةُ الحُجرَات ۔۸,۷}

” لیکن (یہ تو) اللہ (کا احسان ہے کہ اُس) نے ایمان کو تمھارا محبوب بنا دیا ہے اور تمھارے دِلوں میں اس کو زینت دے دی ہے اور کفر، فِسق اور نافرمانی سے تم کو متنفّر کر دیا ہے، ایسے ہی لوگ ہدایت پر ہوتے ہیں ၀ (یہ ہدایت) اللہ کے فضل و احسان سے (ہی ملتی) ہے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔“

سورۂ حجرات مدنی ہے لہٰذا اس آیت میں تمام مہاجرین اور انصار شامل ہیں مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عمارؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، حضرت اسید بن حضیرؓ وغیره رضی اللہ تعالٰی عنہم۔

آیات بالا سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں :-
۱ – اللہ تعالی کی گواہی کہ ان لوگوں کو ایمان محبوب ہے۔

۲ – ایمان ان کے قلوب میں مزیّن کر دیا گیا ہے۔

۳ – کفرہی سے نہیں بلکہ ہرگناہ سے وہ بیزار ہیں۔

۴ – یہ لوگ راہِ ہدایت پر ہیں۔

۵ – ان لوگوں پر اللہ کا فضل اور انعام ہے۔

ان آیات کے ہوتے ہوئے بھی ان لوگوں کے ایمان میں شک کرنا، ان کو دنیا دار، مکّار اور گمراہ سمجھنا یقیناً ان آیات کا انکار کرنا ہے اور آیات قرآنی کا انکار کرنا یقیناً کفر ہے۔ لہٰذا جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں یا انھیں بد دیانت سمجھتے ہیں انھیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صحابہ کرامؓ نے جو کچھ کیا اس میں للہیت تھی۔ اللہ تعالٰی کی نافرمانی کا انھوں نے قطعاً کبھی ارادہ نہیں کیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
۲۔ لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوْبِهِمْ فَانَزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا၀{۴۸ ۔ سُوۡرَةُ الفَتْح ۔ ۱۸}

”(اور اے رسول) جب مومنین ایک درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے (تواللہ کو یہ بات بہت پسند آئی) اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا، اللہ کو (ان کے عمل سے بھی) معلوم ہو گیا (کہ) جو کچھ ان کے دِلوں میں تھا (وہ یقینًا جذبۂ صادق تھا) پھر اللہ نے ان پر تسلّی نازل فرمائی اور (مستقبل) قریب میں انھیں (کافروں پر) فتح عنایت کی۔“

اس آیت میں ان لوگوں کا ذِکر ہے جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بیعت کرنے والوں میں جیسا کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے حوالے سے سیرۃ النّبی کے بیان میں گزر چکا ہے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عثمانؓ بھی اس بیعت میں شامل ہیں اور ان کو فضیلت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک کو ان کا ہا تھ قرار دیا غرض یہ کہ ان صحابہ کبارؓ سے یقینا اللہ راضی ہے اور یہ رضامندی ان کے دِلوں کی کیفیت کی بنا پر ہے جس کا اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم تھا۔ اگر ان لوگوں کے دِلوں میں ذرا بھی کھوٹ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کبھی بھی ان سے راضی نہیں ہوتا۔ بھلا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ مومنین کے خطاب ہے نوازے، جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہو، جن کے دِلوں کی گہرائیوں میں ایمان اتر چکا ہو، ان کے متعلّق کسی بدنیّتی یا بےایمانی کا شبہ کرنا اس آیت کے انکار کے مترادف ہے۔ اس آیت کی روشنی میں ہر مسلم کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ مذکورہ بالا صحابہؓ اور دوسرے شرکائے بیعت صحابہؓ نے سیاست میں بھی جو کچھ کیا وہ سب خلوص اور نیک نیتی پر مبنی تھا۔ دنیا داری اور مکّاری کو اس میں ذرا بھی دخل نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے راضی ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان لوگوں کی موت ایمان اور خلوص پر واقع ہوئی۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ کسی ایسے شخص سے راضی ہو جائے جس کا انجام اچّھا نہ ہو یا جو بعد میں مُرتد ہو جائے۔ یہ چیز اللہ تعالی کے علم کے قطعاً منافی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
۳۔ لٰكِنِ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ جٰهَدُوْا بِاَ مْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ، وَأُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْخَيْرٰتُ وَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ၀ {۹ ۔ سُوۡرَةُ التّوبَہ ۔ ۸۸}

”لیکن رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے (کتنے اچّھے ہیں کہ) انھوں نے اپنے مالوں سے بھی جہاد کیا اور اپنی جانوں سے بھی جہاد کیا ان کےلیے (دنیا اور آخرت میں) بھلائیاں ہیں اور یہ لوگ فلاح پانے والے ہیں“

آیتِ بالا میں صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ یہ آیت جنگ تبوک کے بعد نازل ہوئی، لہٰذا اس آیت میں نہ صرف حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ شامل ہیں، بلکہ حضرت ابو سفیانؓ اور حضرت امیر معاویہؓ بھی شامل ہیں جو جنگ تبوک سے بہت پہلے فتح مکّہ کے موقع پر ایمان لاچکے تھے۔
آیت بالا سے ثابت ہوا کہ مندرجہ بالا اصحابؓ نے اور ان کے علاوہ دوسرے اصحابؓ نے اللہ کے راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ جب ان کی قربانی کا یہ عالم تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اسلام کو پامال ہوتا دیکھتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔ لہٰذا جن حکومتوں کو انھوں نے شرفِ قبولیّت بخشا وہ یقیناً اللہ کے نزدیک بھی پسندیدہ تھیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
۴۔ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖ اِخْوَانَا{۳ ۔ سُوۡرَةُ اۤل عِمرَان ۔ ۱۰۳}

”اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کی وہ یہ کہ ایک وقت وہ تھا کہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے، اللہ نے تمھارے دِلوں میں اُلفت ڈال دی پھر تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے“

آیت بالا میں اس بات کا کتنا واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرامؓ آپس میں ایک دوسرے سے بڑی محبّت کرتے تھے۔
ان کی آپس کی دشمنیاں سب ختم ہوگئی تھیں اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ صحابہ کرامؓ کی یہ محبّت عارضی تھی، بعد میں وہ پھر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ کیا احسان ہوا جس کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں جتا رہا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کا فضل عارضی اور غیر مستحکم تھا، ہر گز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان میں محبّت پیدا کر دی تو وہ عارضی نہیں ہو سکتی، بھائی بھائی بنا دیا تو اب وہ پھر دشمن نہیں ہو سکتے اللہ کی خبر سچّی ہے اور تاریخ کے افسانے جھوٹے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے شدید ترین دشمن تھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے:-
۵۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَ رِضْوَانًا{۴۸۔ سُوۡرَةُ الفَتْح ۔ ۲۹}

”محمّد اللہ کے رسول ہیں (ان ہی کے ذریعے دینِ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرنا ہمارا مدِّنظر ہے) اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دِل ہیں (اے رسول) آپ ان کو دیکھیں گے کہ (کبھی) رکوع کر رہے ہیں اور کبھی سجدہ کر رہے ہیں (اور) اللہ کے فضل اور اُس کی رضا کے (ہمہ اوقات) متلاشی رہتے ہیں“

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین پر چلتے رہتے ہیں وہی در اصل خلافت کے مستحق ہوتے ہیں اور جب وہ دین پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں تو پھر خلافت کے مستحق نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ ان سے خلافت و حکومت چھین کر دوسروں کو دے دیتا ہے۔
اس آیت سے صحابۂ کرامؓ کی مندرجہ ذیل خصوصیات ثابت ہوئیں :۔

۱. کافروں پر سخت۔

۲. آپس میں رحیم۔

۳. ان کا اکثر وقت نمازوں میں گزرتا ہے۔

۴. وہ ہمّہ اوقات اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رضا تلاش کرتے رہتے ہیں۔

اس آیت کی موجودگی میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ایک صحابیؓ دوسرے صحابیؓ پر ظلم کرتا تھا، زدوکوب کرتا تھا، تاریخ کے ایسے تمام واقعات جو قرآن مجید کی اس آیت سے متصادم ہیں یقیناً جھوٹ و افترا ہیں۔ یہ آیت ایک اٹل حقیقت ہے، اس کی صحت بِلا رَیب ہے۔ یہ اللہ علّام الغیوب کی شھادت ہے۔ اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ اسلام کے دشمنوں اور نادان دوستوں کا کارنامہ ہے جنھوں نے واقعات گھڑ گھڑ کر تاریخ اسلام میں سموئے اور صحابہ کرامؓ کو بدنام کیا۔ اس آیت میں اس بات کا کتنا واضح ثبوت ہے کہ صحابہ کرامؓ ہر کام میں اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب تھے۔ لہٰذا انھوں نے جو کام بھی کیے وہ خلوص پر مبنی تھے، ان میں سے کسی میں دنیا داری، مکّاری اور بد دیانتی نام کو بھی نہیں تھی۔ اگرہم ایسا فرض کرلیں تو معاذ اللہ آیت کی تکذیب لازم آئے گی، اور یہ یقیناً کُفر ہے۔ کیا اس آیت کی روشنی میں کوئی مومن یہ بھی سوچ بھی سکتا ہے کہ فلاں صحابی غاصب تھا، دنیا دار تھا، دنیوی مفاد کی خاطر جھوٹ بولتا تھا، خوشامد کرتا تھا یا غلط مشورے دیتا تھا۔ ہر گز نہیں۔ ان لوگوں کے متعلّق جن میں حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ وغیرہ شامل ہیں بدگمانی کرنا آیت کا انکار کرنا ہے۔ کاش لوگ غور کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
۶۔ اِذْ جَعَلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْافِیْ قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَعَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَكَانُوْا أَحَقَّ بِھَا وَاهْلَهَا، وَكَانَ اللهُ بِڪُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا၀{۴۸ ۔ سُوۡرَةُ الفَتْح ۔ ۲۶}

”(اور) جب کافروں نے اپنے دِلوں میں حمیّت کو جگہ دی یعنی (ایّامِ) جاہلیت کی حمیّت کو جگہ دی تو اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی تسلّی نازل فرمائی اور ان کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے حق دار بھی تھے اور اہل بھی اور (اے رسول) اللہ تو (ہر وقت) ہر چیز سے واقف ہوتا ہے۔“

آیت بالا سے ثابت ہوا کہ صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے:

۱. مومن ہیں۔

۲. تقویٰ اُن کی رگ و پَے میں سرایت کر گیا ہے۔

۳. وہ تقوے کے حق دار بھی ہیں اور اہل بھی۔

یعنی صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے تمام صحابہؓ جن میں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ وغیرہ شامل ہیں مومن تھے ، نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔ وہ تقوے اور خلوص کے حقداربھی تھے اور اہل بھی۔ اس آیت کی موجودگی میں کیا کوئی مومن ان صحابہ کرامؓ سے متعلّق بدگمانی کر سکتا ہے، بھلا جن لوگوں کے دِلوں میں خلوص و للہیت کو پیوست کر دیا گیا ہو کیا وہ کسی وقت بھی اپنے ہاتھ سے تقوے کا دامن چھوڑ دیں گے اور بجائے رضائےالہٰی کے دنیا کے جو یا بن جائیں گے، غصب کریں گے حق تلفیاں کریں گے۔ ہرگز نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
۷۔ لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمُ مَّنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ، أُولٰٓئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ أَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰتَلُوْا، وَكُلًا وَّعَدَ اللهُ الْحُسْنٰى وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ၀{۵۷ ۔ سُوۡرَةُ الحَدید ۔ ۱۰}

”جن لوگوں نے تم میں سے فتح (مکّہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (بعد میں خرچ کرنے والوں اور جنگ کرنے والوں کے) برابر نہیں ہو سکتے، وہ لوگ ان لوگوں سے جنھوں نے (فتح مکّہ کے) بعد خرچ کیا اور جنگ کی درجے میں بہت زیادہ ہیں (اگرچہ) اللہ نے سب سے اجر و ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے (بخوبی) واقف ہے۔“

اس آیت میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ نے حضرت خالدؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ وغیرہ کی بڑی فضیلت ہے، کیونکہ یہ سب لوگ فتح مکّہ سے پہلے مسلم ہوگئے تھے اور جان و مال سے جہاد کرتے رہے تھے۔ دوسرے لوگ جو فتح مکّہ کے موقع پر یافتح مکّہ کے بعد ایمان لائے مثال حضرت ابو سفیانؓ حضرت معاویہؓ وغیرہ اگرچہ درجہ میں کم ضرور ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان سے بھی خوش ہے اور ان کو جنّت کی بشارت دے رہا ہے۔ کیا ایسے لوگوں سے جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہے بعض رکھنا کسی مومن کے شایانِ شان ہو سکتا ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
۸۔ وَلَمَّارَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْأَحْزَابَ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُوْلَه ٗوَمَازَادَهُمْ اِلَّاۤ إِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا၀ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ، فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا၀ {۳۳ ۔ سُوۡرَةُ الاحزَاب ۔ ۲۳،۲۲}

”اور جب مومنین نے (کافروں کی) فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ تو وہی ہے جس کے متعلّق اللہ اور اُس کے رسول نے ہمیں پہلے ہی خبر دے دی تھی اور اللہ اور اُس کے رسول نے سچ کہا تھا، اس (منظر کو دیکھ کر وہ ڈگمگائے نہیں بلکہ اس) سے ان کے ایمان اور اطاعت میں اور زیادتی ہو گئی۔مومنین میں (بہت سے ایسے) لوگ ہیں جنھوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا تو ان میں سے بعض (توا یسے ہیں جنھوں) نے اپنی نذر پوری کر دی اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو (اپنی نذر پوری کرنے کا) انتظار کر رہے ہیں، انھوں نے (اپنی نیّت و ارادے میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔“

صحابہ کرامؓ کے ایمان کی کتنی زبردست شھادت ہے، ایمان لانے کے بعد ایمان و تسلیم میں زیادتی کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن اس ایمان میں کسی قسم کا نقص، عہد و پیمان کے متعلّق تبدیلی یا نفاق کا شائبہ کہیں نظر نہیں آتا۔ بھلا ایسے لوگوں کے متعلّق کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ایمان میں کھوٹ تھا، انھوں نے اللہ اور رسولؐ سے جو وعدے کیے تھے وہ محض ظاہر داری تھی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
۹۔ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَاِقَامِ الصَّلوٰةِ وَاِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ၀ {۲۴ ۔ سُوۡرَةُ النُّور۔ ۳۷}

”وہ لوگ جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کا ذِکر کرنے، نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی، وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس دن دِل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گی۔“

آیت بالا سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرامؓ کو مال کی خواہش اللہ کی فرمان برداری سے نہیں روکتی، وہ اللہ کے راستے میں زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں، دنیوی مال و متاع کی کوئی طمع ان میں نہیں پائی جاتی جو انھیں ادائے گی زکوٰۃ سے روکے اور بخل پر آمادہ کرے۔ کیا اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ لالچی تھے، دنیا دار تھے، ہر گز نہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
۱۰۔ وَالسّٰبِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ تَحْتَهَا الْأَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ أَبَدًا، ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ၀ {۹۔ سُوۡرَةُ التّوبَہ ۔ ۱۰۰}

”اور (اے رسول) جن لوگوں نے مہاجرین و انصار میں سے (ایمان لانے میں) سبقت کی اور وہ لوگ جنھوں نے بحسنُ و خوبی ان کی پیروی کی ان (سب) سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اللہ نے ان کےلیے ایسے باغات تیّار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے (اور) یہ (بہت) بڑی کامیابی ہے۔“

ایمان میں سبقت کرنے والے مثلاً حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ اور مدینہ منوّرہ کے اکثر انصاری، یہ سب ایسے لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے اور نہ صرف ان سے خوش ہے بلکہ ان کی پیروی کرنے والوں سے بھی خوش ہے، اور اللہ تعالی کسی شخص سے جب ہی خوش ہوتا ہے جب اس کا انجام بخیر ہو، اگر کسی شخص کا انجام اچّھا نہ ہو تو اللہ اس سے خوش نہیں ہوتا، اس کی مثالیں سیرۃ النّبی صلّی اللہ علیہ وسلّم میں گزر چکی ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ وغیرہ کے دَورِ حکومت میں ان سے ایسا کوئی کام سرزد نہیں ہوا جو للہیت پر مبنی نہ ہو ورنہ اللہ ایسے لوگوں سے خوش نہ ہوتا، جو لوگ ان صحابہؓ کے کسی کام کو بدنیّتی پر محمول کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔ تِلْكَ عشر كاملة۔

۱۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم فرماتے ہیں :-
يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيَقُولُونَ: فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيُقَالُ هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيُقَالُ هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ.

لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ جب کوئی جماعت جہاد کرے گی تو لوگ کہیں گے کیا تم میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کا کوئی صحابیؓ ہے ؟ وہ لوگ کہیں گے ہاں ہے، پھر اس صحابیؓ کی برکت سے ان کو فتح دی جائے گی۔ پھر ایک زمانہ آئے گا، لوگ جہاد کریں گے تو کہیں گے کیا تم میں کوئی صحابیؓ کا صحابیؒ ہے ؟ جواب ملےگا ہاں ہے، پھر انھیں فتح دی جائے گی۔(صحیح بخاری ابواب المناقب صحيح مسلم بافضل الصحابة عن ابي سعيد ؓ)

بھلا جن لوگوں کی یہ شان ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے فتح عنایت کرے وہ کبھی بد دیانتی کر سکتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کے متعلّق بدگمانی کی جاسکتی ہے، پھر برکت بھی ایسی کہ ان کے اپنے دور کے بعد بھی باقی رہے، ان کے صحابیؓ بلکہ صحابیؒ کے صحابیؒ بھی بابرکت ہوں۔
غور کیجیے یہ جہاد کس زمانے میں ہوئے۔ یہ اُسی زمانے میں ہوئے جس زمانہ کو بدنام کیا گیا ہے۔ یہ بنواُمیّہ اور بنوعباس کا دَورِ خلافت ہے۔ پھر یہ بھی غور کیجیے کہ یہ جہاد کرنے والے کون تھے، کیا کوئی مخصوص طبقہ تھا، نہیں بلکہ یہ عامّۃ المسلمین تھے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم تو اس زرّین دَور کی تعریف کریں اور لوگ اسے تاریک ترین دَور قرار دیں۔ کیا یہ ایمان کی علامت ہے ؟
۲۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُونَهُمْ،

سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، پھر جو اُن کے بعد ہیں “(صحیح بخاری البواب المناقب عن عبد الله بن مسعود ؓ و عمران بن حصين ؓ و صحیح مسلم بالفضل الصحابة عن عبد الله بن مسعود ؓ و عمران بن حصین ؓ و عائشہ صدیقه ؓ و ابی هریرة ؓ)

اس حدیث سے صحابہ کرامؓ اور تابعینِ عظّامؒ کی فضیلت آشکارا ہے۔ اگر یہ لوگ مکّار اور دنیا دار ہوتے تو اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم اس قسم کی فضیلت نہ بیان فرماتے۔ یہ فضیلت بھی کسی خاص طبقے اور خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس میں عام صحابہؓ اور تابعینؒ شامل ہیں۔
۳۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
وَأَصْحَابِیْ أَمَنَةٌ لِأُمَّتِیْ، فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِيْ أَتَى أُمَّتِیْ مَا يُوْعَدُوْنَ “.

“میرے صحابہؓ میری امّت کے لیے امان ہیں، جب میرے صحابہؓ ختم ہو جائیں گے تو میری امّت پر وہ چیز آجائے گی جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے “(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب بیان ان بقار النبی صلّی اللہ علیہ وسلّم امان لاصحابه عن ابن موسٰیؓ )

خلاصہ: ۔غرض یہ کہ صحابہ کرامؓ بڑے با برکت لوگ تھے۔ ان کا زمانہ جو تقریباً ۱۱۰ھ تک باقی رہا خیر و برکت کا زمانہ تھا صحابہ کرامؓ ایمان خلوص اور للہیت سے سرشار تھے، تقویٰ شعار تھے۔ لہٰذا ایسی جماعت کے متعلّق کسی قسم کی بدگمانی کرنا شانِ ایمان نہیں، وہ کوئی فعل ایسا نہیں کرتے تھے جس میں رضائے الہی کے لیے جستجو نہ ہو، ان کے تمام افعال نیک نیّتی پر مبنی تھے۔ ان سے کسی غلطی کا ہوجانا تو ممکن ہے لیکن یہ قطعاً ناممکن ہے کہ وہ اس غلطی میں نیک نیّت نہ ہوں اور اللہ کی رضا پر دنیوی مفاد کو ترجیح دیں۔ اگر تلاش سے کوئی غلطی ھمیں اُن کی مِل بھی جائے تو ہم قطعی طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ جس غلطی کو ہم غلطی سمجھ رہے ہیں وہ اُن کے فہم میں بھی غلطی تھی یا نہیں۔

{صحیح تاریخ الاسلام والمسلمین صفحہ ۶۴۷ تا۶۵۳}

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔



Share This Surah, Choose Your Platform!