ہمارا امام صرف ایک یعنی محمّد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہمارا امام صرف ایک

یعنی محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم


null

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہمارا امام صرف ایک۔ یعنی

محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم

امام سے مراد وہ امام نہیں جو نماز پڑھاتا ہو، امام سے مراد وہ امام نہیں جو کسی فن میں مہارت رکھنے کی وجہ سے اس فن میں امام کہلاتا ہو۔امام سے مراد وہ امام نہیں جو امیر یا حکمراں ہو۔ امام سے مراد وہ امام بھی نہیں جو کسی نیکی میں پہل کرنے کی وجہ سے دوسروں کے لیے پیش رو بن جائے ۔ بلکہ۔
یہاں امام سے ہماری مراد وہ امام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے  منصبِ امامت پر سرفراز فرمایا ہو۔ جس کا حکم واجب الاتباع ہو، جس کا ہر فقرہ ضابطۂ حیات ہو، جس کا ہر فعل مشعلِ ہدایت ہو، جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہو، جس کی امامت عارضی نہ ہو بلکہ قیامت تک کے لیے دائمی ہو، جو معصوم ہو، جس سے دینی بات میں غلطی کا صدور نا ممکن ہو ، جس کی ہر دینی بات وحی ہو۔
اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں کہ حاکم صرف ایک ہے یعنی اللہ تعالیٰ ۔ اُس کے بندوں پر صرف اُسی کا حکم چلتا ہے دوسروں کا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہر بندے کے پاس براہِ راست نہیں پہنچتا بلکہ وہ اپنے بندوں میں سے کسی ایک بندے کو منتخب کر لیتا ہے اور اس بندے کو اپنے تمام احکام سے مطلع فرماتا ہے۔ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام سے دوسروں کو مطلع کر دیتا ہے۔ ایسے بندے کو نبی یا رسول کہتے ہیں۔ رسول، اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اس کی اطاعت عین اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ،(سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۸۰)
جو شخص رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ یقینًا اللہ ہی کی اطاعت کرتا ہے۔
رسول خود اپنی اطاعت نہیں کراتا بلکہ اس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ، (سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۶۴)

ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
کیونکہ اطاعت جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، لہٰذا بغیر، اُس کے حکم یا اجازت کے کسی دوسرے کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی شخص بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم یا اجازت کے دوسرے کی اطاعت کرتا ہے تو گویا اس نے اس دوسرے شخص کو اطاعت میں اللہ تعالیٰ کا شریک بنالیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ اپنے کسی بندے کی اطاعت کو انسانوں پر فرض قرار دے دے۔ اگر بندے خود کسی کو اطاعت کے لیے منتخب کرلیں تو گویا وہ خود الٰہ بن بیٹھے، اللہ تعالیٰ کے حقِ رسالت پر خود قابض ہو گئے اور یہ شرک ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ،(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۲۴)

اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کس کو عطا فرمائے۔
لہٰذا وہ جس کسی کو رسالت عطا فرماتا ہے اسے بنی نوع انسان کا امام و مطاع بنا دیتا ہے۔ امام بنانا لوگوں کا کام نہیں۔ جو لوگ رسول کے علاوہ دوسروں کو اپنا مطاع اور امام بنائیں ، پھر انھی کی اطاعت کریں، انھی کے فتووں کو سندِ آخر سمجھیں وہ شرک فی الرسالت کے مرتکب ہوں گے۔
صرف رسول ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے امام بنا کر بھیجا جاتا ہے، رسول کو رسالت یا امامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

اِنِّیْ جَاعِلُڪَ لِلنَّاسِ اِمَامًا،(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۲۴)
(اے ابراہیم) میں تم کو لوگوں کا امام بنا رہا ہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ الصّلوۃ والسّلام جانتے تھے کہ امام بنانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے لہٰذا وہ دعا فرماتے ہیں :-
وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ،(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۲۴)
(اے اللہ) میری اولاد میں سے بھی (امام بنانا)،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ۝۱۲۴(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۲۴)
(ہاں بناؤں گا) لیکن میرے اس عہد کا اطلاق ظالموں پرنہیں ہو گا ۝۱۲۴
آیت بالا سے ثابت ہوا کہ امام بنانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے نہ کہ انسانوں کا۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ امام گناہ گار نہیں ہوتا بلکہ معصوم ہوتا ہے۔ لہٰذا جو معصوم ہو گا وہی امام ہوگا، جو معصوم نہیں وہ امام بھی نہیں اور معصوم سوائے نبی کے اور کوئی نہیں ہوتا لہٰذا سوائے نبی کے اور کوئی امام نہیں ہو سکتا۔
حضرت ابراہیم علیہ الصّلوۃ والسّلام اور چند اور رسولوں کا ذِکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ ۔(سُوْرَۃ ُالْاَنْبِیَآءِ : ۲۱، آیت : ۷۳)
ہم نے ان کو امام بنایا تھا، وہ ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو نیک کام کرنے کی وحی کی تھی،
اس آیت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کا ذِکر فرمایا ہے اور اُن کے امام بنائے جانے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ان آیات سے ثابت ہوا کہ امام بنانا اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ امام صرف رسول ہی ہوتے ہیں۔ رسول کے علاوہ اگر کسی دوسرے کو امام بنایا جائے تو یہ شرک فی الامامت ہے۔ رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کو اپنے تمام اختلافات میں حکم ماننا اور اس کے فیصلے کو بلا چون و چرا تسلم کرنا حقیقی ایمان ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے :-
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝۶۵(سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۶۵)
(اے رسول) آپ کے ربّ کی قسم، لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تمام اختلافات میں آپ کو حکم نہ مان لیں پھر جو کچھ فیصلہ آپ کریں اس سے اپنے دِل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ برضا و رغبت اسے تسلیم کریں۝۶۵
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام اختلافات میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وسلّم) آخری سَنَد ہیں جو لوگ اپنے معاملات میں کسی غیر نبی کو سند مانتے ہیں، اس کے قول و فعل کو بلا چون و چرا اور بے دلیل تسلیم کرتے ہیں وہ گویا اس کو نبی کا درجہ دے دیتے ہیں۔ آیت بالا کی رُو سے ایسے لوگ مؤمن نہیں ہو سکتے۔
رسول ہی وہ ہستی ہے جس کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

قُلْ اِنْ ڪُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ،وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝۳۱(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۳۱)
(اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم کو اللہ (تعالیٰ) سے محبّت کرنے کا دعویٰ ہے تو میری پیروی کرو، (اگر تم میری پیروی کرو گے تو) اللہ (تعالیٰ) تم سے محبّت کرے گا، تمھارے گناہوں کو معاف کر دے گا کیوں کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے۝۳۱
رسول ہی وہ ہستی ہے جس کی اطاعت اورپیروی سے ہدایت ملتی ہے۔
ارشاد باری ہے :-

وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا، (سُوْرَۃ ُ النُّوْر: ۲۴، آیت : ۵۴)
اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پر چل کر منزلِ مقصود پر پہنچ جاؤ گے،
ارشاد باری تعالیٰ ہے :-

وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ۝۱۵۸ (سُوْرَۃُ الْاَعْرَافِ: ۷، آیت : ۱۵۸)
ان کی پیروی کرو تا کہ تمھیں ہدایت مل جائے۝۱۵۸
کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی سندیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے علاوہ کسی اور کے حق میں بھی وارد ہوئی ہیں، اگر نہیں تو بے سند شخص کیسے امام ہو سکتا ہے، کیسے اس کی اطاعت اور پیروی سے ہدایت مل سکتی ہے۔ رسول ہی وہ ہستی ہے جو اپنے منصب کے لحاظ سے اس بات کا حقدار ہے کہ وہ منزل من اللہ شریعت کی تشریح و توضیح کر سکے، کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ تشریح و توضیح کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ۝۴۴(سُوْرَۃُ النَّحْلِ: ۱۶، آیت : ۴۴)
(اے رسول) ہم نے یہ شریعت آپ پر (اس لیے) نازل کی ہے تا کہ آپ لوگوں کے لیے نازل شدہ باتوں کی تشریح کر دیں اور لوگ اپنی نجات کے متعلق سوچ سکیں۝۴۴
رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کے قول و فعل کی مخالفت کرنا فتنہ عظیم اور عذابِ الیم کو دعوت دینا ہے۔
اللہ تعالے کا ارشاد ہے :۔

فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝۶۳(سُوْرَۃ ُ النُّوْر: ۲۴، آیت : ۶۳)
ان لوگوں کو جو رسول کے قول و فعل کے خلاف چلتے ہیں ڈرتے رہنا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر کوئی درد ناک عذاب نازل ہو جائے۝۶۳
رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کا طریقہ تمام مسلمین کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ یہی وہ نمونہ ہے جس کے مطابق بن کر لوگ اللہ تعالیٰ سے کوئی امید رکھ سکتے ہیں۔
ارشاد باری ہے :-

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ ڪَثِیْرًا۝۲۱(سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ : ۳۳، آیت : ۲۱)
بےشک رسول اللہ (کی سیرت) میں تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے (یعنی تم لوگوں میں سے ہر) اس شخص کےلیے (بہترین نمونہ ہے) جو اللہ (تعالیٰ) سے اور قیامت کے دن سے ڈرتا ہو اور اللہ کا ذِکر کثرت سے کرتا ہو۝۲۱
یہ نمونہ اللہ تعالیٰ نے بھیجا ، اللہ کے نمونے کے علاوہ دوسرے نمونے بنانا خود کو اللہ تعالیٰ کے منصب پر فائز کرنا ہےاور یہ شرک ہے۔ رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کی ہر بات وحی اِلہٰی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :-

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی۝۳ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی۝۴(سُوْرَۃُ النَّجْمِ : ۵۳، آیت : ۳ تا ۴)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے بات کرتے ہیں۝۳ جو کچھ کہتے ہیں وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۝۴
کیا یہ سند کسی کو حاصل ہے، اگر نہیں تو پھر کسی دوسرے کی بات کیسے سند ہو سکتی ہے۔ رسول ہی کی وہ ذاتِ گرامی ہے جس کی ہر بات حق ہے ، جو معصوم ہے جو کبھی غلطی پر قائم نہیں رہتا۔
ارشاد باری ہے ۔

اِنَّكَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ۝۷۹ (سُوْرَۃُ النَّمْلِ : ۲۷، آیت : ۷۹)
(اے رسول) بےشک آپ درخشاں حق پر قائِم ہیں۝۷۹
کیااللہ کی طرف سے یہ سند کسی اور کو ملی ہے ۔ اگر نہیں ملی تو وہ امام کیسے ہو سکتا ہے۔ امام وہی ہو سکتا ہے جس کی ہر بات حق ہو۔
رسول ہی وہ سراج منیر اور روشن چراغ ہے جس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کا مطالعہ ہو سکتا ہے۔ اگر یہ روشن چراغ نہ ہو تو پھر تاریکی میں نہ شریعتِ الہٰی کا مطالعہ ہو سکتا ہے نہ صراطِ مستقیم مل سکتی ہے۔ ظلمت میں سوائے ضلالت کے اور کیا مل سکتا ہے۔
انسانوں میں رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کا فیصلہ مل جانے کے بعد کسی مومن کو اختیا ر باقی نہیں رہتا کہ وہ اس معاملے میں خود کوئی رائے دے یا کسی دوسرے کی رائے لے مومن کو رسول کے فیصلے ہی پرعمل کرنا ہوگا اوربس،
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:-

وَ مَا ڪَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ،وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا۝۳۶(سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ : ۳۳، آیت : ۳۶)
کسی مومن مرد اور کسی مومنہ عورت کےلیے یہ زیبا نہیں کہ جب اللہ اور اُس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اس بات کے سلسلے میں انھیں کوئی اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا۝۳۶
کیا یہ حق اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی اور انسان کو دیا گیا ہے، اگر نہیں دیا گیا تو پھر وہ امام کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ واجب الاتباع کیسے ہو سکتا ہے ؟ کسی مومن کو اختیار نہیں کہ رسول کا فیصلہ سننے کے بعد کوئی اور بات کہے سوائے اس کے کہ میں نے سنا اور میں اطاعت کروں گا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا،وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵۱(سُوْرَۃ ُ النُّوْر: ۲۴، آیت : ۵۱)
جب انھیں اللہ اور اُس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ (یعنی اللہ یا اُس کا رسول) ان کے درمیان فیصلہ کر دے تو وہ یہ کہیں کہ ہم نے سن لیا اور ہم اطاعت کریں گے اور یہ ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۝۵۱
کیا یہ منصب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی اور کو عطا ہوا ہے۔ یقناً نہیں اور جب یہ منصب کسی کو عطا نہیں ہوا تو پھر وہ واجب الاتباع کیسے ہو سکتا ہے ، وہ امام کسے ہو سکتا ہے؟
رسول ہی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ وہ سیدھے راستے پر ہے۔
ارشاد باری ہے :-

اِنَّكَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۴۳(سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ : ۴۳، آیت : ۴۳)
(اے رسول) بے شک آپ سیدھے راستے پر ہیں۝۴۳
رسول ہی کے متعلّق اللہ تعالے ٰکی گواہی ہے کہ وہ سیدھے راستے کی طرف دعوت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ اِنَّكَ لَتَدْعُوْهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۝۷۳ (سُوْرَۃُ المُؤْمِنُوْنِ: ۲۳، آیت : ۷۳)
(اے رسول) آپ بےشک ان کو صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دے رہے ہیں۝۷۳
رسول ہی کے متعلّق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ اس کی پیروی سے سیدھا راستہ مل سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

وَ اتَّبِعُوْنِ،هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۝۶۱(سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ : ۴۳، آیت : ۶۱)
(اے رسول) کہہ دیجیے میری پیروی کئے چلے جاؤ، صراطِ مستقیم یہ ہی ہے۝۶۱
یہ آیات اس بات کی کھلی سند ہیں کہ رسول صراطِ مستقیم پر ہے، رسول صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے ، رسول کی پیروی صراطِ مستقیم ہے بتائے یہ سندیں اور ضمانتیں کسی اور کے پاس ہیں؟ نہیں اور یقینًا نہیں ہیں تو پھر وہ امام کیسے ہوسکتے ہیں، ان کی بات آخری سند کیسے ہو سکتی ہے، ان کے فتوے اور قیاسات دین میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں ۔ رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کی ہر دعوت اور ہر پکار حیاتِ جاوداں بخشتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ذوالجلال والاکرام فرماتا ہے :-
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاڪُمْ لِمَا یُحْیِیْڪُمْ،(سُوْرَۃُ الْاَنْفَالِ: ۸، آیت : ۲۴)
اے ایمان والو، جب اللہ اور رسول تمھیں ایسے کام کےلیے بلائیں جو تمھارے لیے (دنیا و آخرت میں) حیات بخش (اور سکون و راحت کا ضامن) ہو تو ان کے حکم کو (سننا اور) قبول کرنا،
رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کی پیروی نہ کرنا میدانِ محشر میں باعث حسرت و ندامت ہو گا۔
اللہ تعالیٰ عز وجل ارشاد فرماتا ہے :-

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا۝۲۷(سُوْرَۃ ُالْفُرْقَانِ: ۲۵، آیت : ۲۷)
اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا اور کہے گا اے کاش! میں نے رسول کے ساتھ (سیدھا) راستہ اختیار کیا ہوتا۝۲۷
رسول ہی کی وہ ہستی ہے جس کی پیروی سے رحمت ملتی ہے۔
اللہ عز وجل کا فرمان ہے :-

وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ ڪُلَّ شَیْءٍ،فَسَاَڪْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۝۱۵۶ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ (سُوْرَۃُ الْاَعْرَافِ: ۷، آیت : ۱۵۶ تا ۱۵۷)
میری رحمت تو ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے البتّہ میں اپنی رحمت ان لوگوں کےلیے لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۝۱۵۶یعنی وہ لوگ جو رسول، کی پیروی کرتے ہیں،
رسول ہی کی وہ ہستی ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا، جو تقیہ نہیں کرتا جو بے خوف و خطر حق کو بیا ن کرتاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ، (سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ : ۳۳، آیت : ۳۹)
جو لوگ اللہ کی رسالت کو پہنچاتے ہیں اور اللہ ہی سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے (وہی آپ کے لیے نمونہ ہیں)۔
بھلا جو لوگ غیر اللہ سے ڈرتے ہوں ، تقیہ کرتے ہوں ، تقیہ کر کے حق کو چھپاتے ہوں وہ کیسے معصوم ہو سکتے ہیں، ان کی ہر بات حق کیسے ہو سکتی ہے، امام تو در حقیقت وہی ہو سکتا ہے جو بے خوف و خطر اللہ کے احکام کی تبلیغ کرے اور کسی ملامت کرنے والے طعنے دینے والے کی پرواہ نہ کرے بلکہ اپنے مخالفین کو چیلنج دے کہ تم سب مل کر جو کچھ میرے خلاف کرنا چاہتے ہو، کر گزرو اور مجھے ذراسی بھی مہلت نہ دو۔
حضرت نوح علیہ الصّلوۃ والسّلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں :-

فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۷۱ (سُوْرَۃُ یُوْنُسَ : ۱۰، آیت : ۷۱)
اپنے شریکوں کو بھی جمع کر لو، پھر تمھاری تدبیر (کا کوئی گوشہ) تم پر مخفی نہ رہ جائے، پھر (جو کچھ تم کرنا چاہو) میرے خلاف کر گزرو اور مجھے (بالکل) مُہلت نہ دو۝۷۱
حضرت ہود علیہ الصّلوۃ والسّلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں :-
ڪِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِ۝۵۵(سُوْرَۃُ ھُوْدٍ : اا ، آیت : ۵۵)
تم سب مل کر (مجھے نقصان پہنچانے کےلیے جو) تدبیر کرنی چاہو کرو اور مجھے بالکل مُہلت نہ دو۝۵۵
اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے :-
قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَڪُمْ ثُمَّ ڪِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ ۝۱۹۵ (سُوْرَۃُ الْاَعْرَافِ: ۷، آیت : ۱۹۵)
(اے رسول) آپ (ان سے) کہہ دیجیے کہ اپنے شُرکا کو بلاؤ اور (سب مل کر) میرے خلاف کوئی تدبیر کرو، پھر مجھے ذرا سی بھی مُہلت نہ دو ۝۱۹۵
الغرض رسولوں کے متعلّق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ وہ بے خوف و خطر ہر مسئلے کو بیان کرتے ہیں خواہ مخالفین اس مسئلے کو سن کر کتنے ہی غیظ و غضب میں آئیں۔ اگر رسول ایسا نہ کریں تو حقِ رسالت ادا نہیں ہو گا جسا کہ ارشادِ باری ہے وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ،(سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ: ۵، آیت : ۶۷)
جن علما کو لوگوں نے خود امام بنالیا ہے اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دے لیا ہے ان کے ایمان کے ثبوت میں بھی ان کے پاس کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہم صرف ان کے ظاہری عقائد و اعمال کی بنا پر حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ وہ مومن ہیں لیکن ان کے مومن ہونے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ ان کی تمام باتیں سو فصد صحیح ہوں گی۔ ان کی زبان سے سوائے حق کے اور کچھ نہیں نکلے گا ان سے اجتہادی غلطی نہیں ہوگی۔ وہ تقیہ نہیں کریں گے۔ خوف سے مصلحت کی خاطر حق  کو نہیں چھپائیں گے۔ نہ ہمارے پاس ان کے متعلّق وحی الہٰی کی ایسی کوئی سند ہے نہ خود ان اماموں  کے پاس وحی الہٰی کی ہی ایسی کوئی سند ہے اور نہ ان کے پاس وحی آتی ہے کہ ان کو غلطی سے بچائے تو پھر بتائیے کہ ایسی صورت میں وہ امام کیسے ہو سکتے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ۝۳۳ (سُوْرَۃُ مُحَمَّدِ : ۴۷، آیت : ۳۳)
اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۝۳۳
آیتِ بالا سے معلوم ہوا کہ اعمال کی قبولیت کا دارومداراطاعتِ رسول پر ہے۔ تمام اعمالِ حسنہ جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے فرمان کے مطابق نہ کیے جائیں باطل ہیں۔ کیا یہ حیثیت بھی کسی اور کو حاصل ہے۔ اگر نہیں تو وہ امام کیسے ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَڪِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ، (سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۶۴)
اللہ نے مومنین پر (بڑا) احسان کیا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو انھیں اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، ان (کے قلوب) کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے،
کیا ایسی سَنَد اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی اور کو حاصل ہے۔ کیا کسی دوسرے کی اتباع سے تزکیہ نفس ہونا یقینی ہے۔ کیا کسی اور شخص کے متعلّق کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کتاب و حکمت کا جو مفہوم بتایا ہے وہ یقینًا صحیح ہے۔ اگر نہیں تو وہ امام کیسے ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ (سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۵۹)
اگر کسی معاملے میں تمھارا اختلاف ہو جائے تو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملے کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ،
کیا آپس کے اختلافات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے علاوہ بھی کوئی اور آخری سَنَد مقرّر کیا گیا ہے، اگر نہیں تو پھر وہ امام کیسے ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْڪُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ،(سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۱۰۵)
(اے رسول) ہم نے حق کے ساتھ آپ کی طرف کتاب نازل کی ہے تاکہ جو کچھ اللہ آپ کو سمجھائے اس کے مطابق آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں،
کیا کسی اور کے فیصلے بھی اللہ کی رہنمائی میں صادر ہوتے ہیں۔ اگر نہیں تو ان کی بات کیسے سند ہو سکتی ہے؟ مندرجہ بالا آیات سے ثابت ہوا کہ صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے جس کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، جس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ جس کا طریقہ واجب الاتباع ہے۔ جس کی ہر بات وحی ہے، جو خود ہدایت پر ہے اور ہدایت کی طرف دعوت دیتا ہے، جس کی اطاعت و اتباع سے ہدایت ملتی ہے۔ جس کی پیروی سے ولایت ملتی ہے۔ جس کے پاس ان تمام باتوں کے لیے وحی الہٰی کی سند ہے اور وہ ہستی صرف محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ گرامی ہے۔ تو پھر بتائیے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی اطاعت سے، کسی اور کو آخری سند یا امام بنانے سے سوائے نقصان کے اور کیا مل سکتا ہے۔ یہ نقصان دو۲ قسم کا ہوگا ایک شرک فی الرسالت یا شرک فی الامامت کا دوسرا فرقہ بندی کا۔
شرک کسی قسم کا بھی ہو، بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا لہٰذا اس سے بچنا بڑا ضروری ہے ورنہ نجات نا ممکن ہے۔ فرقہ بندی اللہ کا عذاب ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ صرف ایک متفق علیہ امام  کو امام مانا جائے۔ ایسا امام سوائے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے اور کون ہو سکتا ہے، کوئی فرقہ ایسا نہیں جورسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو واجب الاتباع نہ مانتا ہو، ان کی پیروی کو ذریعہ نجات نہ سمجھتا ہو۔
اتّباعِ رسول مقصد ہے، علما اور فقہا ذریعہ تو ہو سکتے ہیں مقصد نہیں بن سکتے، علما اور فقہا امام کی باتیں ہم تک پہنچانے والے ہیں خود امام نہیں ہیں ۔ امام ہمارا صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارا امام بنایا ہے ۔
جماعت المسلمین اسی دعوت کو لے کر اٹھی ہے۔ آئیے ، صرف اللہ کے بنائے ہوئے امام کو مانیے۔ فرقہ بندی ختم کر دیجیے، سب ایک مرکز پر جمع ہو جائیے اور ایک ہو جائیے۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔



Share This Surah, Choose Your Platform!