ہماری محبت کی بنیاد صرف ایک یعنی اللہ تعالیٰ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہماری محبّت کی بنیاد
صرف ایک یعنی

اللہ تعالیٰ سے تعلّق

دنیوی تعلقات نہیں


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہماری محبّت کی بنیاد صرف ایک۔ یعنی اللہ تعالیٰ

محبّت کی بنیادیں مختلف ہوا کرتی ہیں۔ کبھی محبّت کی بنیاد رشتے داری ہوتی ہے، کبھی شرکت ہوتی ہے، کبھی دولت ہوتی ہے،کبھی خوبصورتی ہوتی ہے،کبھی قومیت ہوتی ہے، کبھی وطنیت ہوتی ہے اورکبھی محبّت کی بنیاد اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۶۵)
ایمان والوں کو تو سب سے زیادہ محبّت اللہ (تعالیٰ) سے ہوتی ہے،
اس آیت سے ثابت ہوا کہ مومن در حقیقت وہ ہے جو سب سے زیادہ محبّت اللہ تعالیٰ سے کرے اور جو شخص سب سے زیادہ محبّت اللہ تعالیٰ سے نہیں کرتا وہ مومن نہیں۔ مومن کا سب سے بڑا محبوب الله تعالیٰ ہونا چاہے ۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

قُلْ اِنْ ڪَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُڪُمْ وَ عَشِیْرَ تُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْڪُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ،وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۝۲۴
(سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ : ۹، آیت : ۲۴)
(اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ (اے ایمان والو) اگر تم کو اپنے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں اور رشتے دار، وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، وہ تجارت جس کے مندا ہونے سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جو تمھیں (بہت) پسند ہیں، اللہ اور اُس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم صادر فرمائے (ایسے لوگ فاسق ہیں) اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت پر چلا کر منزلِ مقصود پر نہیں پہنچاتا۝۲۴
اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ مومن کو سب سے زیادہ محبّت اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہیے ۔ لہٰذا ان تمام وجوہ سے جن کی بنیاد پر کسی سے محبّت کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبّت کرنے کی وجہ سے زیادہ اشدّ اور عظیم ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی اللہ والے سے محبّت نہیں کرتا تو اس کا منطقی اور لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی سے محبّت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ سے شدید ترین محبّت کرنے اور اللہ والوں سے محبّت کرنے ہی سے ایمان کی مٹھاس مل سکتی ہے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا ارشاد گرامی ہے :-

ثلَاثٌ مَّنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَالْاِيْمَانِ مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ اَحَبَّ عَبْدً الَّا يُحِبُّهٗ اِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِی الكُفْرِ بَعْدَ اِذْ انْقَذَهُ اللهُ كَمَا يَكْرَهُ اَنْ يُّلْقٰى فِی النَّارِ
{صحیح بخاری مسیح مسلم من الايمان}
تین۳ چیزیں جس شخص میں ہوں اس نے ایمان کی مٹھاس پالی (۱) جس کے نزدیک اللہ اور اُس کا رسولؐ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہو (۲) جو کسی بندے سے محبّت کرے تو صرف اللہ کے لیے محبّت کرے (۳) جو کفر میں واپس جانے کو اس کے بعد کہ اللہ نے اسے کفر سے نجات دے دی ہو اتنا بُرا سمجھے جتنا بُرا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو سمجھتا ہے۔
جس طرح محبّت اللہ کے لیے ہونی چاہے اسی طرح بغض بھی اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-

لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ ڪَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْ،اُولٰٓىِٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ،وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا،رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ، اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ،اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲
(سُوْرَۃُ الْمُجَادِلَۃِ: ۵۸، آیت : ۲۲)
(اے رسول) آپ ایسی قوم نہیں پائیں گے جو اللہ پر اور یومِ آخرت (یعنی قیامت کے دن) پر ایمان رکھتی ہو پھر وہ ان لوگوں سے دوستی رکھے جو اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی اور خاندان کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، یہ (ایمان والے) وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دِلوں میں ایمان کو تحریر کر دیا ہے اور اپنی وحی سے ان کی تائید کی ہے، اللہ ان کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اللہ ان سے خوش ہو گا، وہ اللہ سے خوش ہوں گے، یہ ہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں (اور) خبردار ہو جاؤ اللہ کا لشکر ہی فلاح پائے گا۝۲۲
جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے، ایمان والوں کو بھی اسے اپنا دشمن سمجھنا چاہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَڪُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ، وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْڪُمْ فَاُولٰٓىِٕڪَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۳
(سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ : ۹، آیت : ۲۳)
(اے ایمان والو) اگر تمھارے آباء و اجداد اور تمھارے بھائی بند ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو ان کو دوست نہ بناؤ اور (خبردار ہو جاؤ کہ) تم میں سے جو لوگ ان کو دوست بنائیں گے وہ (یقینًا) ظالم ہیں۝۲۳
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّڪُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ،
(سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَّۃِ: ۶۰، آیت : ۱)
اے ایمان والو، اگر تم میرے راستے میں جہاد کرنے اور میری رضا کی جستجو میں (اپنے گھروں سے) نکلے ہو تو میرے دشمن کو اور اپنے دشمن کو (اپنا) دوست نہ بناؤ، تم ان کی طرف محبّت کے پیغام بھیجتے ہو حالانکہ جو حق تمھارے پاس آیا ہے وہ اس کا انکار کرتے ہیں،
آگے فرمایا :-
وَ مَنْ یَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ۝۱
(سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَّۃِ: ۶۰، آیت : ۱)
تم میں سے جو شخص (آئندہ) ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا۝۱
ایمان باللہ کا تقاضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے محبّت کی جائے، اللہ تعالیٰ ہی کے لیے بغض رکھا جائے اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے بعض نہیں رکھتا وہ آیاتِ بالا کی رو سے ظالم ہے، گمراہ ہے۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
لَنْ تَنْفَعَكُمْ اَرْحَامُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ،یَوْمَ الْقِیٰمَةِ،
(سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَّۃِ: ۶۰، آیت : ۳)
قیامت کے دن تمھارے رشتے اور تمھاری اولاد تمھیں ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے،
خلاصہ یہ ہوا کہ محبّت اور بغض کی بنیاد اللہ تعالیٰ ہے۔ جو اللہ کا ہے اس سے ہمیں محبّت ہونی چاہیے جو اللہ کا نہیں ہے اس سے ہمیں بغض ہونا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کا جس کسی سے جیسا تعلّق ہو گا ہمارا بھی اس کے ساتھ ویسا ہی تعلّق ہوگا۔ ہمارے تعلّقات لِلّٰہیت کے ماتحت ہوں گے جس شخص کا جتنا زیادہ تعلّق اللہ تعالیٰ سے ہو گا اتنی ہی زیادہ محبّت کا وہ حقدار ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ تعلّق رسولؐ کو ہوتا ہے لہٰذا ہمیں بھی مخلوقات میں سب سے زیادہ محبّت رسولؐ سے ہونی چاہیے ، ایمان باللہ کا تقاضہ یہی ہے، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
لَا يُؤْ مِنْ أَحَدُ كُو حَتَّى أَكُونَ احَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ والنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم}
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے لڑکے اور تمام لوگوں کےزیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ
(سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ : ۳۳، آیت : ۶)
نبی مومنوں کےلیے ان سے زیادہ ان کے خیرخواہ ہیں
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے بعد پھر درجہ بدرجہ تمام رسولوں اور مومنین سے محبّت ہونی چاہیے۔ مومن سے محبّت کیوں کی جائے؟ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے، اس کا تعلّق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اسی تعلّق کا تقاضہ ہے کہ ہم اس سے محبّت کریں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ،
(سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ : ۹، آیت : ۷۱)
مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں،
ہمیں ہر مومن سے ایسی محبّت ہونی چاہیے جیسی محبّت اپنے بھائی سے ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
(سُوْرَۃُ الْحُجُرٰتِ : ۴۹، آیت : ۱۰)
مومنین تو آپس میں بھائی بھائی ہیں
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
المسلم أخو المسلم
( صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ایک مسلم دوسر سے مسلم کا بھائی ہے۔
مومنین کا آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بن جانا یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْڪُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا،
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۰۳)
اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کی وہ یہ کہ ایک وقت وہ تھا کہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے، اللہ نے تمھارے دِلوں میں اُلفت ڈال دی پھر تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے،
آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بن جانا یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ زمین کی تمام دولت خرچ کرنے سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی، یہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے دِل میں محبّت ڈال دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰڪِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ،اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۝۶۳
(سُوْرَۃُ الْاَنْفَالِ: ۸، آیت : ۶۳)
اگر آپ زمین میں جتنی دولت ہے (وہ سب اس مقصد کےلیے) خرچ کرتے تو آپ ان کے دِلوں میں اُلفت پیدا نہیں کر سکتے تھے، مگر (ہاں یہ کام) اللہ (ہی کا تھا کہ اُس) نے ان کے درمیان اُلفت پیدا کر دی، بےشک وہ غالب اور حکمت والا ہے (وہ اپنی حکمت کے ساتھ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے)۝۶۳
جب ایک مسلم کا دوسرے مسلم سے محبّت کرنا، اس کو اپنا بھائی سمجھنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوئی تو کوئی مسلم اس نعمت سے محروم رہنا پسند نہیں کرے گا، اور جب یہ بات ہے تو اے ایمان والو محض اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے بغض نکال دو، محض اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبّت کرو، اللہ تعالیٰ ہی کا رشتہ مضبوط رشتہ ہے، یہی رشتہ قیامت کے دن بھی کام آئے گا۔ اس کے علاوہ تمام رشتے اور دوستیاں کام نہ آئیں گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ لَا یَسْـَٔلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا۝۱۰ یُبَصَّرُوْنَهُمْ،یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِىِٕذٍۭ بِبَنِیْهِ۝۱۱ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ اَخِیْهِ۝۱۲ وَ فَصِیْلَتِهِ الَّتِیْ تُـْٔوِیْهِ۝۱۳ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا،ثُمَّ یُنْجِیْهِ۝۱۴ ڪَلَّا،
(سُوْرَۃُ سَاَلَ سَآئِلٌ/معارج : ۷۰، آیت : ۱۰ تا۱۵)
(اس دن) کوئی دوست کسی دوست کا پُرسانِ حال نہ ہو گا۝۱۰ حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے اس دن مجرم یہ چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے اپنے بیٹوں کو۝۱۱ اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو دے دے۝۱۲ اور اپنے خاندان کو جو اسے (دنیا میں) پناہ دیا کرتا تھا (فدیے میں) دے دے۝۱۳ بلکہ رُوئے زمین پر جتنے آدمی ہیں سب کو (فدیے میں) دے دے اور اپنے آپ کو (عذاب سے) بچالے ۝۱۴ لیکن ایسا ہو گا نہیں،
اللہ تعالٰی فرماتا ہے :-
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ۝۳۴ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ۝۳۵ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِ۝۳۶
(سُوْرَۃُ عَـبَسَ: ۸۰، آیت : ۳۴تا۳۶)
اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گااپنی ماں اور اپنے باپ سے (بھاگے گا)اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے (بھاگے گا)۝۳۶
اللہ تعالیٰ متّقیوں سے محبّت کرتا ہے ہمیں بھی متّقیوں سے محبّت کرنی چاہیے، یہ محبّت کبھی منقطع نہیں ہوگی، حقیقی دوستی ہے جو کبھی دشمنی میں تبدیل نہیں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىِٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۝۶۷
(سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ : ۴۳، آیت : ۶۷)
اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متّقین کے (کہ وہ ایک دوسرے کے دوست ہی رہیں گے)۝۶۷
میدان محشر میں بہت سخت گرمی ہوگی، لوگوں کو اتنا پسینہ آئے گا کہ کوئی اپنے پسینے میں ٹخنوں تک کوئی گھٹنوں تک کوئی کمر تک ڈوب جائے گا کسی کا پسینہ منھ تک پہنچ جائے گا لیکن وہ دو۲ آدمی سایہ میں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے لیے، ایک دوسرے سے محبّت کرتے تھے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں۔

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِله يَوْمَ لَاظِلَّ الأَظِلُّهُ ….. وَرَجُلَانِ تحابا فِي اللهِ اجْتَمَعًا عَلَيْهِ وَنَفَرقًاعَلَيْهِ
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
سات۷ (قسم کے) آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن) اپنے سایے میں جگہ دے گا، اس دن اللہ کے سایے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا ….. وہ دو۲ آدمی بھی اس سایہ میں ہوں گے) جو آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبّت کرتے تھے۔ اکھٹے ہوتے تھے تو اسی محبّت پر، جدا ہوتے تھے تو اسی محبّت پر (یعنی حاضر ہوں یا غائب یہ محبّت بدستور قائم رہتی تھی)
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ”بے شک (اللہ کے لیے) آپس میں محبّت کرنے والوں کے بالا خانے جنّت میں اس طرح دکھائی دیں گے جس طرح مشرق یا مغرب میں طلوع ہونے والا تارہ دکھائی دیتا ہے۔ لوگ پوچھیں گے وہ کون لوگ ہیں (جو ان بالا خانوں میں مقیم ہیں) جواب ملے گا : اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِی اللهِ عَزَّ وَجَلَّ{مسند احمد – رجاله ثقات – بلوغ الامانی جزء ۱۹ مه ۱۵و سندہ صحیح} یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ عز وجل کے لیے آپس میں محبّت کرتے تھے۔“
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں:اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ ان کی مجلس اور قربِ الہٰی کو دیکھ کر انبیا اور شہدا رشک کریں گے۔ ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ان کی صفت کیا ہوگی؟ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: ” وہ لوگ غیر معروف اور اپنے قبیلے سے دور اور اجنبی ہوں گے ان میں آپس میں کوئی قریبی رشتہ نہیں ہو گا، وہ آپس میں ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لےں محبّت کرتے ہوں گے اور اسی محبّت پر وہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے، قیامت کے دن اللہ انیںہ نور کے منبروں پر بٹھا بھا ئے گا اور ان کے چہروں اور کپڑوں کو بھی نورانی کر دے گا۔ قیامت کے دن تمام لوگوں پر گھبراہٹ طاری ہو گی لیکن ان لوگوں پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوگی۔ یہ لوگ اللہ کے ولی ہوں گے انھیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غم گین ہوں گے۔” {مسند احمد عن ابی مالک فتح ربانی جزء ۳۰ ۱۵ و جزاء شها ، حسنه المنذري ومحمد الحاكم}
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :-
وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِيْنَ فِیَّ
{موطا امام مالك مش و سنده صحیح}
میری محبّت ان لوگوں کے لیے لازم ہوگئی جو میرے لیے آپس میں ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں محبّت کرنا بہت ضروری ہے مسلم کا سب سے بڑا محبوب اللہ تعالی ہے، تو پھر ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبّت دوسری تمام محبّتوں سے بالاتر ہونی چاہیے یہی وہ محبّت ہے جو ہمیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادے گی، ہم ایک ہو جائیں گے، ایک دوسرے پر ہم اپنی جان چھڑکیں گے۔ دوسروں کی تکلیف ہم پر شاق گذرے گی ہم اس کو حتی الوسع دور کرنے کی کوش کریں گے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں۔تم دیکھو گے کہ مومن آپس میں ترحم، محبّت اور مہربانی میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب (بدن کے) کسی عضو میں (درد وغیرہ کی) شکایت ہوتی ہے تو بدن کے باقی اعضا ایک دوسرے کو بلاتے ہیں (تاکہ بھی شریکِ الم ہوں اور سب مل کر اس عضو کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں، پھر ہوتا یہ ہے کہ نیند نہیں آتی، بخار چڑھ جاتا ہے (اور سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے)(صحیح بخاری و صح مسلم)
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں:تمام مومن فرد واحد کے مثل ہیں، اگر اس کی آنکھ میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگر سر میں درد ہوتا ہے تو تمام بدن بے چین ہو جاتا ہے۔(صحیح مسلم)
پس اگر ایک مومن پر کوئی مصیبت آئے تو تمام ایمان والوں کو اس کی مصیبت میں شریک ہونا چاہیے۔ ایک مومن کی تکلیف پوری امّت مسلمہ کسی کی تکلیف ہونی چاہیے، اس طرح معاشرہ میں سکون راحت کی ہوائیں چلیں گی،اخوّت ہمدردی اور مواسات کی گھنگھور گھٹائیں فضائے عالَم پر چھا جائیں گی ہم ایک دوسرے کی قوّت کا سب ہوں گے ہماری قوّت بے پناہ ہوگی، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :- ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسے ایک عمارت، اس کا بعض حصّہ بعض حصّے کو تقوّیت دیتا ہے پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں (اور یہ بتایا کہ جس طرح ایک انگلی دوسری انگلیوں کی قوّت کا سبب ہے اسی طرح ایک مومن دوسرے مومنین کی قوّت کا سبب ہے، اگر ایک فرد بھی الگ ہوجائے تو قوّت میں کافی فرق پڑ جائے گا){ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
جماعت المسلمین کی دعوت یہی ہے کہ ہم سب ایک جائیں، ایک اللہ کو حاکم مانیں، صرف حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کو اپنا امام مانیں، صرف اسلام کو دین مانیں، صرف قرآن و حدیث پر عمل کریں، اپنے آپ کو صرف مسلم کہیں، اللہ کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے محبّت کریں اور اس محبّت کو تمام محبّتوں پر ترجیح دیں۔ کوئی شخص ہو خواہ وہ ہمارے ملک کا باشندہ ہو یا ہمارے خاندان کا فرد ہو یا ہمارا وطنی بھائی ہو ہمیں اس کے مقابلے میں ایک دین دار اللہ الے سے زیادہ محبّت ہونی چاہیے جو شخص اسلام کا یا اللہ والوں کا دشمن ہو اس سے اللہ تعالیٰ کے لیے بعض رکھنا چاہیے۔
اٹھیے، قوم پرستی، وطن پرستی کے بتوں کو توڑ کر مسمار کر دیجیے۔ الحب فی الله والبغض فی اللہ کو دستاویز بنایے، جماعت مسلمین کے ساتھ تعاون فرمایے۔


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔



Share This Surah, Choose Your Platform!