مقدمہ - Quran Majeed | Urdu | Syed Masood Ahmed (R.A.)

مقدمہ

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

عرب کے شہر مکّہ معظّمہ کو منجملہ اور بہت سی فضیلتوں کے ایک بہت بڑا شرف یہ حاصل ہے کہ اسی شہر میں بیت اللہ شریف (یعنی کعبہ)واقع ہے جو دنیا میں اللہ کا سب سے پہلا گھر ہے ۔ جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ السّلام نے رکھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ الصّلوٰۃ والسّلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے اسے از سرِ نو تعمیر فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اسے بتوں سے پاک کرکے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کا مرکز قرار دیا۔ مسلمین دنیا میں کہیں رہتے ہوں، وہ بیت اللہ کی سمت رخ کرکے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ استطاعت ہونے کی صُورت میں ہر مسلم پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ حج اسلام کا پانچواں اہم رکن ہے۔ یہ ہر سال ذوالحجّہ کے مہینے میں ادا کیا جاتا ہے۔ حج کے اندر ہمارے لیے بیشمار دینی اور دنیوی فوائد پوشیدہ ہیں۔ ان میں سے بہت سے فائدے ہمارے علم میں ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے فائدے ایسے بھی ہوں گے جن کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہاں مختصر طور پر اتنا بتانا کافی ہوگا کہ حج ہماری جسمانی اور روحانی تربیّت اور تزکیۂ نفس کی ایک مکمّل اور جامع مشق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مسلم اس تربیّت میں کامیاب ہو جائے اس کے لیے خوش خبری ہے کہ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ایک نوزائیدہ بچّہ(صحیح بخاری و صحیح مسلم) دورانِ حجّ تمام مسلمین بلا امتیاز نسل و رنگ اور بلا امتیاز امیر و غریب ایک جیسے لباس میں اللہ کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں۔ تمام ظاہری فرق مٹا کر سب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ کبھی دیوانہ وار کوئے حبیب میں دوڑتے ہیں اور کبھی اس کے گھر کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ کبھی محبوبِ حقیقی کی یاد میں صحرا نوردی کرتے ہیں اور کبھی انتہائی والہانہ انداز میں اس کا نام لے لے کر کنکریاں پھینکتے ہیں، کبھی اس کے در پر جبیں سائی کرتے ہیں تو کبھی اس کی دہلیز کے پتّھر چوم لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ مکمّل وارفت گی اور خود سپردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمہ اوقات مختلف عبادات اور ذِکر الہٰی میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ اور ہر قسم کی بُرائی اور گناہ سے دور رہتے ہیں۔ یہ ایک زبردست عملی تربیّت ہے۔ اگر تمام مناسکِ حجّ خلوصِ نیّت اور تقوے کے ساتھ ادا کیے جائیں تو ممکن نہیں کہ اس تربیّت کا اثر بعد کی زندگی میں ظاہر نہ ہو۔ مکّہ معظّمہ میں اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ الصّلوٰۃ والسّلام، اللہ تعالیٰ کے ذبیح حضرت اسماعیل علیہ الصّلوٰۃ والسّلام اور اللہ تعالیٰ کے حبیب محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی یادگاریں جا بجا پائی جاتی ہیں۔ ہم ہر نماز میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تونے اپنا انعام فرمایا ہے۔ حجّ کے دوران ہم اس بات کا عملی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی راہ ہم کو کتنی عزیز ہے۔ وہاں سنّتِ ابراہیمی اور سنّتِ مصطفوی اور دیگر انبیا علیہم السّلام کی پیروی ہمارے پیش نظر ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حجرِ اسود ایک پتّھر ہے جو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن ہمارے محبوب نے اسے بوسہ دیا ہے اس لیے ہم بھی اسے بوسہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں سے انتہائی عقیدت و محبّت اور ان کے احترام کے باوجود ہم عبادت صرف اللہ اکیلے کی کرتے ہیں۔ حجّ اور اس کے مناسک صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ بیت اللہ کے علاوہ کسی اورکے گھر کاقصد کرنا، اس کا طواف کرنا یا اس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھنا وغیرہ وغیرہ شرک ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کی زندگی میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہمیں بھی اپنی زندگی اطاعتِ الہٰی میں اسی طرح وقف کر دے نی چاہیے جیسے ان لوگوں نے کی اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہماری نماز، ہماری قربانی اور ہماری زندگی اور موت سب اللہ اکیلے کے لیے ہو جو ربّ العالمین ہے۔ فلسفۂ حج کی روح بھی یہی جذبۂ جاں سپاری ہے۔ یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں حج کا مسنون طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ تمام مسلمین کو چاہیے کہ مسنون طریقوں پر عمل کریں اور بدعات سے اجتناب کریں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل مقبول ہے جو سنّتِ نبوی صلّی اللہ علیہ وسلّم کے مطابق ہو۔ اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم میں ہمارے لیے اچّھا نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنّت پر عمل کرنے اور سنّت کے مطابق حج کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور ہمارے اعمال کو قبول فرمائے۔ آمین

شعبہ نشرواشاعت
جماعت المسلمین



Share This Surah, Choose Your Platform!