ہمارے فخر کا سبب صرف ایک یعنی ایمان

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمارے فخرکا سبب

صرف ایک

یعنی ایمان بااللہ العظیم= وطن و زبان نہیں


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہمارے فخر کا سبب صرف ایک یعنی ایمان

فخر کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں ، مثلاً نسب ، وطن ، زبان ، قابلیت ، طاقت ، سیاست، اقتدار، حسن۔ لیکن فخر کے یہ تمام اسباب فانی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آخرت میں کام آنے والا نہیں، آخرت میں کام آنے والی چیز صرف ایمان ہے، یہی وہ چیز ہے جس پر ایک مسلم کو فخر کرنا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر معاشرہ کی تشکیل کرنی چاہیے، اسی کی بنیاد پر محبّتوں کو استوار کرنا چاہیے۔
عزت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ عزّ وجلّ ہے۔
اللہ عزّ وجلّ فرماتا ہے :-
اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًا۝۱۳۹
(سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۱۳۹)
بےشک اللہ ہی تمام عزّتوں کا مالک ہے۝۱۳۹
تُعِزُّمَنْ تَشَآءُکے بمصداق اللہ ہی عزّت دیتا ہے اللہ ہی ذلّت دیتا ہے۔ اگر ہمارا اللہ تعالیٰ پر واقعی ایمان ہے تو یقینًا وہ ہمیں عزّت دے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
مَنْ ڪَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِیْعًا،
(سُوْرَۃُ فَاطِرٍ : ۳۵، آیت :۱۰)
جو شخص عزّت کا طلب گار ہے تو عزّت تو سب اللہ کی ہے،(وہ جس کو چاہے گا عزّت دے گا)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
(سُوْرَۃُ اِذَا جَآءَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ: ۶۳، آیت : ۸)
عزّت تو اللہ کی ہے، اُس کے رسول کی ہے اور مومنین کی ہے
آیت بالا سے واضح ہوا کہ ایمان ہی در حقیقت عزّت ہے، لہٰذا قابل فخر چیز صرف ایمان ہی ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۴۳)
تم کو معتدل امّت بنایا
اے ایمان والو! ایمان ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں بہترین امّت کا خطاب دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

ڪُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْڪَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ،
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۱۰)
(اور اے ایمان والو) جتنی امّتیں لوگوں کےلیے پیدا کی گئیں ان میں تم سب سے بہتر ہو، تم نیک کام کا حکم دیتے ہو بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر (صحیح معنوں میں) ایمان لاتے ہو،
اے ایمان والو! یہ ایمان ہی ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے
هُوَ اجْتَبٰىكُمْ
(سُوْرَۃُ الْحَجِّ : ۲۲، آیت : ۷۸)
تم کو (اقوامِ عالم) میں منتخب کیا (اور قیادت کی ذمّے داریاں تمھارے سپرد کیں)
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا،
(سُوْرَۃُ فَاطِرٍ : ۳۵، آیت : ۳۲)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے تمہیں چن لیا اور (اپنی) کتاب کا وارث تمہیں ٹھرایا۔
اے ایمان والو تمھیں اپنے ایمان پر بجا طور پر فخر ہو سکتا ہے، اس لیے کہ اس ایمان ہی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی نظرِ انتخاب تم پر پڑی اور تمھیں اقوامِ عالَم کا قائد بنا دیا تمھیں وہ اعزاز بخشا کہ دوسرے لوگ تمھارے غلام کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِڪٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۲۲۱)
مشرک مرد سے تو مومن غلام بہتر ہے اگرچہ وہ مشرک مرد تمھیں اچّھا ہی کیوں نہ معلوم ہو
اے ایمان والو! اسی ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنی نعمت سے سرفراز فرمایا۔
ارشاد باری ہے:

وَ اذْڪُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ مَاۤ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَ الْحِكْمَةِ
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۲۳۱)
اللہ کی نعمت کو جو اُس نے تم پر کی ہے اور کتاب و حکمت کی جو باتیں تم پر نازل کی ہیں انھیں یاد کرو،
ارشاد باری ہے:
وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا ڪَثِیْرًا،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۲۶۹)
جس کو حکمت و دانائی مل گئی تو اس کو خیرِ کثیر مل گئی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب و حکمت کا نزول اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابل میں تمام نعمتیں بیچ ہیں۔ اے ایمان والو! یہ نعمت بھی تمھیں ایمان ہی کی بدولت ملی ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ،وَ هُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝۵۷ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِڪَ فَلْیَفْرَحُوْا،هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸
(سُوْرَۃُ یُوْنُسَ : ۱۰، آیت : ۵۷ تا ۵۸)
اے لوگو، تمھارے پاس تمھارے ربّ کی طرف سے نصیحت، امراضِ قلب کےلیے شِفا (تم سب کےلیے) ہدایت اور مومنین کے لیے رحمت آچکی ہے۝۵۷(اے رسول) آپ کہہ دیجیے اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت سے (یہ کتاب ان کے پاس آگئی ہے) تو (اب اس کے آنے سے) انھیں خوش ہونا چاہیے (اور اے رسول) جو کچھ (مال و دولت) یہ جمع کر رہے ہیں یہ کتاب اس سے (بدرجہا) بہتر ہے۝۵۸
اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت ایمان والوں کو ملی ہے، لہذا ایمان ہی وہ چیز ہے جس پر فخر کا دارو مدار ہے۔ اے ایمان والو! یہ ایمان ہی ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ تمھارا دوست بن جاتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :-

اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۲۵۷)
ایمان والوں کا دوست اللہ ہے
ایمان ہی غلبہ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۝۱۳۹
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۳۹)
اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۝۱۳۹
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا۝۱۴۱
(سُوْرَۃُ النِّسَآءِ: ۴، آیت : ۱۴۱)
اللہ (دنیا میں بھی) کافروں کو مومنین پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۝۱۴۱
ایمان ہی فضلِ الہٰی کا باعث ہے، ارشاد باری ہے :-
وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۝۱۵۲
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۵۲)
اللہ مومنین پر بڑا فضل کرنے والا ہے۝۱۵۲
ایمان ہی احساسِ برتری پیدا کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوْلِیَآءَ،بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ،وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ،
(سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ: ۵، آیت : ۵۱)
اے ایمان والو، یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست تو ہو سکتے ہیں (تمھارے دوست نہیں ہو سکتے)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۝۲۹
(سُوْرَۃُ التَّوْبَۃِ : ۹، آیت : ۲۹)
(اے ایمان والو) اہلِ کتاب میں سے جو لوگ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں لاتے نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اُس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ دینِ حق قبول کرتے ہیں ان سے اس وقت تک لڑو جب تک وہ ماتحت بن کر اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ ادا کریں۝۲۹
یہ ہے مومنین کی شان! مومنین کو برتر ہونا چاہیے نہ کہ ماتحت مومنین کو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ احساسِ کمتری سے انسان اپنی امتیازی شان کھو دیتا ہے۔ اسلامی چیزوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، دوسروں کی چیزوں کو اختیار کرتا ہے، یہ چیز آخر کفر کی نہیں تو اور کس چیز کی غمّاز ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :-
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُم
(ابوداؤد صححہ العراقي۔ بلوغ الامانی ۶/۱۲۱)
جس نے کسی دوسری قوم کی مشابہت کی تو وہ انھی میں شمار ہوگا۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے مومنین میں مزید احساسِ برتری پیدا کرتے ہوئے فرمایا:
لَا تَبْدَؤُا الْيَهُوْدَ وَلَا النَّصَارٰى بِالسَّلَامِ وَاِذَا لَقِيتُمْ اَحَدَ هُمْ فِیْ طَرِيْقٍ فَاضْطَرُوهُ اِلىٰ اَضْيَقِهٖ
(صحیح مسلم)
یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں ابتدا نہ کرو اور جب تم راہ میں ان میں سے کسی سے ملو تو اسے تنگ راستے پر چلنے کے لیے مجبور کرو۔
اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول (صلّی اللہ علیہ وسلّم) تو مومنین میں احساسِ برتری پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن آج کل کے لوگ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کی نقالی پر فخر کرتے ہیں۔ افسوس ہے، کیا یہی شانِ ایمان ہے۔
ایک مومن کو کافر کے مقابلے میں اپنے ایمان پر فخر کرنا چاہیے، لیکن ایک مومن کو دوسرے مومن پر فخر کرنے کے لیے کوئی بنیاد نہیں۔ اس سلسلے میں لوگوں نے جو بنیادیں رکھی ہیں مثلاً نسب، وطن، زبان وغیرہ یہ سب سراسر غیر اسلامی ہیں۔
نسب پر فخر کرنا لغو ہے، نسب آخرت میں کام نہیں آئے گا۔ اہلِ کتاب اسی فخر میں مبتلا تھے،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-

تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ،لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ لَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ،وَ لَا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۳۴
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۳۴ و ۱۴۱)
یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی، ان کےلیے ان کے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال، ان کے اعمال کے متعلّق تم سے باز پُرس نہیں ہو گی۝۱۳۴
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَىِٕذٍ
(سُوْرَۃُ المُؤْمِنُوْنِ: ۲۳، آیت : ۱۰۱)
آپس میں نہ رشتوں کا لحاظ کریں گے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :-
اِنْسَابُكُمْ هٰذِهٖ لَیْسَتُ بِمُسَبَّةٍ عَلىٰ اَحَدٍ كُلُّکُمْ بَنُوْ اٰدَمَ طُفَّ الصَّاعِ بِالصَّاعِ لَمْ تَمْلَؤُهُ لَيْسَ لِأَحَدٍ عَلىٰ اَحَدٍ فَضْلٌ اِلَّا بِدِيْنٍ وَتَقْوى كَفٰى بِالرَّجُلِ اَنْ يَّكُوْنَ بَذِيًّا فَاحِشًا بَخِيْلًا
{احمد بلوغ الامانی ۱۹/۲۲۹وسنده صحیح}
یہ نسب ایسے نہیں کہ ان کی وجہ سے کسی کو بُرا کہا جائے، تم سب اولادِ آدمؑ ہو (تم سب آپس میں ایسے ہو جیسے) ایک صاع دوسرے صاع کے مقابلے میں ہوتا ہے (کیا) تم اسے بھرتے نہیں ہو کیا ایک صاع دوسرے صاع سے برتر ہوتا ہے، نہیں بس اسی طرح کسی کو کسی پر بزرگی نہیں ہے مگر دین اور تقوے کی وجہ سے۔ آدمی میں یہی بُرائی کافی ہے کہ وہ زبان دراز ہو، فحش بکنے والا ہو اور بخیل ہو (اخلاقی بُرائی در حقیقت بُرائی ہے۔ نسب کی بُرائی کوئی حقیقت نہیں رکھتی)۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا،اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ،اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۝۱۳
(سُوْرَۃُ الْحُجُرٰتِ : ۴۹، آیت : ۱۳)
اے لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو (لیکن) اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزّت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متّقی ہے، بےشک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۝۱۳
وطن پر فخر کرنا بھی غیر اسلامی چیز ہے۔ وطن زمین کا ایک حصہ ہوتا ہے، انسانی پیدائش کے لحاظ سے زمین کے ایک حصہ کو دوسرے حصے پر کوئی فضیلت نہیں، جغرافیائی لحاظ سے کسی زمین کا بہتر ہونا یا دینی لحاظ سے کسی زمین کا باحرمت ہونا اور بات ہے لیکن کسی بہتر زمین یا باحرمت زمین میں پیدا ہونے سے کسی انسان کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔ مدینہ منورہ کی حرمت سے کس کو انکار ہے، لیکن منافقین وہیں کی پیداوار ہیں۔ مدینہ منورہ کے مشرقی علاقہ مثلاً عراق وغیرہ سے بموجب حدیث نبوی بہت سے فتنے اٹھے لیکن اسی عراق کی سرزمین میں بہت سے اہل اللہ بھی پیدا ہوئے۔
وطن کی محبّت نہ ایمان کا کوئی جزء ہے نہ اس سلسلے میں کوئی حدیث وارد ہوئی ہے۔ اسلام عالَم گیر اخوّت کا درس دیتا ہے مسلم قوم بس ایک قوم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُڪُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّڪُمْ فَاتَّقُوْنِ۝۵۲
(سُوْرَۃُ المُؤْمِنُوْنِ: ۲۳، آیت : ۵۲)
اور (اے لوگو) یہ تمھاری جماعت بلاشبہ ایک ہی جماعت ہے (تم فرقہ فرقہ نہ بن جانا) میں تمھارا (واحد) ربّ ہوں لہٰذا مجھ سے ڈرتے رہنا
اللہ تعالیٰ ایک ہے تو اُس کی جماعت بھی ایک ہی ہونی چاہیے یہ ہے وحدت ملّت کا وہ سبق جس کو ہم بالکل بھول گئے۔ اپنے ملک اور اپنی قوم پر فخر کرنے لگے، پہلے ملکی بعد میں مسلم بننے پر ناز کیا جانے لگا، کافروں کی نقالی میں ہمارے ہاں بھی مادرِ وطن نے جنم لیا، وطن کی خاطر مرنے اور جینے کا رحجان پیدا ہوا۔
اپنی مادری زبان پر فخر کرنا اور اس کی خاطر جھگڑنا اسلامی شیوہ نہیں، اسلام اس قسم کے جاہلانہ تصوّرات کو ملیا میٹ کرتا ہے۔ یہ تصوّرات تعصّبات کو جنم دیتے ہیں۔ اس سے مسلمین کی قوّت کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ ہمیں صرف اس زبان سے محبّت ہونی چاہیے جس میں اللہ نے اپنا آخری قانون نازل کیا، باقی تمام زبانیں ہمارے لیے برابر ہونی چاہئیں۔
مسلمین میں ملکی یا سیاسی نسلی یا قومی، لسانی یا ثقافتی حدود قائم کرنا اسلامی اصول کو مسخ کر دینے کے مترادف ہے، وطن پرستی سے اسلامی معاشرہ کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ وحدتِ ملّت کا سبق قصّۂ پارینہ بن جاتا ہے۔ جتنے ملک اتنی ہی قومیں وجود میں آتی ہیں۔ امّتِ مسلمہ عصبیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ اتّفاق و اتحاد کا زرّین اصول ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ قومیں آپس میں لڑ لڑ کر اپنی قوّت کو خود ہی پارہ پارہ کرلیتی ہیں مشترک دشمن کے مقابلے میں بھی متحد نہیں ہوتیں۔ اگر ہوتی ہیں تو خلوص مفقود ہوتا ہے، ایک مسلم ملک پر مصیبت آتی ہے تو دوسرا مسلم ملک تماشہ دیکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ وہ رہتا ہے نہ یہ ۔ کسی ملک کی حفاظت محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اسلام کی بقا کی خاطر صرف اسی ملک کے مسلمین پر ہی فرض نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمین پر فرض ہے۔ لیکن کتنے مسلم ہیں جن کو اس بات کا احساس ہے۔ دینی فرقوں نے ہی کچھ کم نقصان نہیں پہنچایا تھا، جو کسر رہ گئی تھی وہ ان وطنی اور ملکی فرقوں نے پوری کردی، اللہ کا رشتہ کالعدم ہو گیا، اللہ کی محبّت کی جگہ وطن کی محبّت نے لے لی، وطن کا بُت دِل و دماغ پر چھا گیا مسلم عنقا ہو گئے ، اسلام ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۝
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :-
اِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتٰبِ اَقْوَامًا (صحیح مسلم)
بے شک اللہ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو رفعت و سر بلندی عطا فرمائے گا۔
مسلمین کو تو اس کتاب مبین کے ملنے پر فخر کرنا چاہیے جس کتاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سربلندی کی ضمانت ہے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-

مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ اَوْ يَدْعُوْا اِلىٰ عَصَبَةٍ اَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ وَفِیْ رِوَايَةٍ لَيْسَ مِنْ اُمَّتِیْ

(صحیح مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة)
جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے (یعنی بے سوچے سمجھے اپنی قوم کی حمایت کرے، یعنی قوم کے لیے غضب میں آئے یا عصبیت کی دعوت دے یا عصبیت میں اپنی قوم کی مدد کرے پھر وہ قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیّت کا قتل ہوگا، ایسا شخص میری امّت میں سے نہیں۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے عہدِ با برکت میں ایک مہاجر اور ایک انصاری (لڑکوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا، انصاری نے انصار کو آواز دی مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے سنا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا :-مَا بَالُ دَعْوَى اَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِیہ اہل جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ لوگوں نے آپ کو سارا واقعہ سنایا ، آپ نے فرمایا :-
دَعُوْهَا فَاِنَّهَا خَبِيْثَةٌ
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبياء و صحیح مسلم كتاب البرّ والصّلة)
اس (قسم کی پکار) کو چھوڑ دو، یہ خبیث پکار ہے ۔
مہاجر اور انصار کتنے اچّھے لقب ہیں لیکن جب ان لقبوں کو مسلمین میں تفریق پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا جائے تو ان لقبوں کا ترک کرنا ضروری ہے۔ ایسے موقع پر ان لقبوں سے پکارنا خبیث کام ہے، یہ ایامِ جاہلیّت یعنی کافروں کا شعار ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ افسوس کہ لوگوں نے بہت سے گھٹیا لقبوں اور فرقہ وارانہ ناموں سے اپنے کو منسوب کر کے آپس میں تفریق پیدا کر لی، آئے دن کے جھگڑے انھی ناموں کے شاخسانے ہیں۔ کاش یہ لوگ غور کریں اور اپنا صرف ایک نام رکھ لیں یعنی مسلم یہی اللہ تعالیٰ کا رکھا ہوا نام ہے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
مَنِ ادَّعٰى دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَإِنَّهٗ مِنْ جُثٰى جَهَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُوْلَ اللهِ وَاِنْ صَلّٰى وَصَامَ فَقَالَ وَاِنْ صَلّٰى وَصَامَ فَادْعُوْا بِدَعْوَى اللهِ الَّذِیْ سَمّٰكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ عِبَادَ اللهِ
(رواه الترمذي في ابواب الامثال و صححہ)
جس نے جاہلیّت کی پکار پکاری وہ اہلِ دوزخ میں سے ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ، اگر چہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے؟ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا : اگر چہ وہ نماز پڑھے اور روزے رکھے۔ لہٰذا مسلمین کو ان ہی القاب سے پکا روجن القاب سے اللہ نے، جس نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے، پکارا ہے یعنی مومنین، اللہ کے بندے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ۱۲ ذو الحجّہ سنھ ۱۰ کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :-
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَبَاڪُمْ وَاحِدٌ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلىٰ اَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلىٰ عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلىٰ اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلىٰ اَحْمَرَ اِلَّا بِالتَّقْوٰى
( رواه احمد ورجاله رجال صحیح بلوغ الامانی جزء ۱۲ صفحہ۲۲۶ وسنده صحیح)
اے لوگو! بے شک تمھارا ربّ ایک ہے تمھارا باپ ایک ہے، خبردار ہو جاؤ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ، نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے، نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے، فضیلت صرف تقوے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے ثابت ہوا کہ ایمان ہی ہے جس پر فخر کیا جائے۔ ایمان ہی عزّت دیتا ہے، ایمان ہی باعثِ نجات ہے، ایمان ہی سے اللہ کی محبّت اور نصرت حاصل ہوتی ہے، ایمان کا نتیجہ غلبہ ہے، احساسِ برتری ہے، ایمان ہی سے سربلندی اور سرفرازی ملتی ہے، ملک، وطن یا زبان سے عزّت حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا اے مسلمو! اپنے ملک، وطن اور نسب پر فخر کرنا چھوڑ دیجیے۔ دوسرے کے وطن کو بُرا نہ کہیے۔ اگر آپ کے سامنے کوئی آپ کے وطن کو بُرا کھے تو آپ کو ملال نہ ہو، آپ کے دِل کے کسی کونہ میں یہ خیال باقی نہ رہے کہ آپ کا وطن، زمین کے دوسرے قطعات یا طبقات سے بہتر ہے اور آپ کے دِل میں وطن کی کوئی محبّت ہو۔ یہ تصوّرات ذہن سے نکال کر پھینک دیجیے آپ کے نزدیک پوری دنیا یکساں ہو جائے اسی طرح نسب اور مادری زبان کے متعلّق بھی اپنی اصلاح کر لیجیے۔ آپ سوچیے اگر آپ کسی دوسرے ملک میں پیدا ہوتے تو کیا وہ آپ کے موجودہ وطن سے زیادہ عزیز نہ ہوتا کیا آپ اس وقت اس ملک کی زبان عزیز نہ ہوتی۔ اگر آپ کو اپنا وطن یا زبان زیادہ عزیز ہے تو کیا دوسرے کو اپنا ملک اور زبان زیادہ عزیز نہیں، اگر ہے اور یقینًا ہے تو کیا یہ ترقی کرنے کی باتیں ہیں، کیا ایسے جذبات سے آپس میں تصادم نہیں ہوگا، کیا یہی اسلام ہے؟ ہر شخص اپنے وطن اور زبان و اچّھا سمجھتا ہے تو آخر وہ کیا معیار ہے جس کی بنیاد کسی کے دِل اور زبان کو دوسرے کے وطن اور زبان پر ترجیح دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :-
لَا يُؤْ مِنْ اَحَدُ كُمْ حَتّٰى يُحِبَّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ .
(صحیح بخاری کتاب الایمان)
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
اگر آپ واقعی مومن بننا چاہتے ہیں تو اپنے مسلم بھائی کی خیر خواہی کیجیے خواہ وہ کہیں کا رہنے ہو، ایک دوسرے پر کسی قسم کے فخر کا اظہار نہ کیجیے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں :-
اِنَّ اللهَ اَوْ حٰى اِلَىَّ اَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰى لا يَفْخَرَ أَحَدٌ علَى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِیَ اَحَدٌ عَلىٰ اَحَدٍ،
(صحیح مسلم)
اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی ہے کہ انکساری کو شیوہ بناؤ یہاں تک کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔
اے مسلمو! جیسے تم میں قوم پرستی اور وطن پرستی آئی جب ہی سے تم ذلیل ہوئے اور اگر اب بھی تمھیں ہوش نہیں آیا تو معلوم نہیں اور کتنا ذلیل و خوار ہو گے۔ اُٹھو! وطن پرستی اور قوم پرستی کی جڑیں اکھاڑ کر پھینکدو، اور مسلم بنو اور “مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا “ کی صدائیں بلند کرو۔
جماعت المسلمین کی دعوت یہی ہے کہ آیے اور سب مل کر ایک ہو جایے۔ وطن اور زبان کی تفریق مٹا دیجیے۔ اپنے ایمان پر فخر کیجیے اور کس چیز پر نہیں اور اس ایمان کو بھی اپنا ذاتی شرف نہ سمجھیے بلکہ اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھیے اور اُس کا شکر ادا کیجیے کہ اُس نے ایمان کی دولت عطا فرمائی ہر مسلؔم کو خواہ وہ کہیں کا رہنے والا ہو اپنا بھائی سمجھیے، اس کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھیے، اس کے لیے وہی چیز پسند کیجیے جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ جماعت کی دعوت سے متفق ہیں تو جماعت کے ساتھ تعاون فرمایے۔ ان تازہ اِلہٰوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ ملّت کا کفن ہے

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔



Share This Surah, Choose Your Platform!