ہمارا دین صرف ایک ۔ یعنی اسلام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ہمارا دین صرف ایک ۔

یعنی اسلام


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ہمارا دین صرف ایک۔یعنی اسلام

اللہ تعالیٰ ہمارا حاکم ہے ، اطاعت و عبادت صرف اُسی کا حق ہے۔ محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ہمارے امام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے ذریعے ہوتی ہے۔ محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہیں۔ جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کے واسطے سے جو قانون ہمارے لیے بھیجا ہے اس قانون کو دین کہتے ہیں اور اس دین کا نام اسلام ہے۔ ارشاد باری ہے :-
رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا،
(سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ: ۵، آیت : ۳)
میں نے تمھارے لیے جس دین کو پسند کیا وہ اسلام ہے ،
اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کا نام اسلام رکھا اور اس اسلام کو اپنے تمام بندوں پر واجب العمل قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ،
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۹)
بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے،
اسلام کے علاوہ کوئی دین یا قانون اللہ کے بندوں پر نافذ نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اسلام کے علاوہ کسی اور دین یا قانون کو حق مانتے ہیں، اس پر چلتے ہیں یا اس کے متلاشی ہیں ان کے متعلّق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ وَ لَهٗۤ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَ۝۸۳
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۸۳)
کیا ان لوگوں کو اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور دین کی تلاش ہے حالانکہ آسمان و زمین والے سب طوعاً وكرهاً اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں اور اُسی کی طرف ان سب کو لوٹ کر جانا ہے۝۸۳
جو لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کسی اور قانون یا ضابطہ کی پیروی کرتے ہیں وہ آخرت میں سرخرو نہیں ہو سکتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :۔

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ،وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝۸۵
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۸۵)
جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا متلاشی ہو گا تو وہ دین اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۝۸۵
اسلام کے معنی اطاعت و فرماں برداری کے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :-

فَاِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗۤ اَسْلِمُوْا،
(سُوْرَۃُ الْحَجِّ : ۲۲، آیت : ۳۴)
تمھارا الٰہ صرف ایک ہے، لہٰذا صرف اُسی کے لیے اسلام لاؤ یعنی صرف اُسی کی فرماں برداری کرو،
اسلام کے معنی سپرد کر دینے کے بھی ہیں۔ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے، اب وہ اپنی خواہشات پر نہیں چلتا بلکہ اس کی تمام حرکات و سکنات اللہ تعالی کے اشارہ پر ہوتی ہیں۔ وہ آزاد نہیں ہوتا بلکہ احکام الہٰی کا پابند ہوتا ہے، اس کا تو پھر یہ قول ہوتاہے:۔
مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۲
(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۶۲)
میری زندگی اور میری موت سب اللہ ربُّ العالمین کےلیے ہے۝۱۶۲
اسلام کے معنٰی سر جھکا دینے یعنی سر تسلیم خم کر دینے کے بھی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

بَلٰی،مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۱۲)
البتّہ جو شخص اللہ کے لیے سر تسلیم خم کر دے اور نیک کام کرتا رہے اس کے لیے اُس کے ربّ کے پاس(اچّھا) بدلہ ہے۔
اسلام ہی ہدایت ہے اور اسلام پر چلنے ہی سے ہدایت ملتی ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَ مَنِ اتَّبَعَنِ،وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ،فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا،وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ،وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ۝۲۰
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۲۰)
پھر (اے رسول) اگر یہ آپ سے جھگڑیں (اور بحث و مباحثہ کریں) تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے اور میری اتّباع کرنے والوں نے اللہ کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیا ہے (ہم تو بس دین، اسلام ہی کو سمجھتے ہیں) اور (اے رسول) آپ اہلِ کتاب اور ناخواندہ لوگوں سے کہہ دیجیے “کیا تم اسلام قبول کرتے ہو” اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ہدایت یاب ہو جائیں گے اور اگر وہ (اسلام سے) منھ موڑیں تو آپ کی ذِمّہ داری سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ آپ (دینِ اسلام ان تک) پہنچا دیں، اللہ (اپنے) ان بندوں کو دیکھ رہا ہے (اور وہ خود ان سے حساب لے لے گا)۝۲۰
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ۔
(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۴)
(اے رسول)آپ کہہ دیجیے کہ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لاؤں۔
اسلام ایک نعمت ہے اور یہ نعمت اسی کو ملتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت پانے کی توفیق ہو۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ،
(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۲۵)
جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کے سینے کو اسلام کےلیے کھول دیتا ہے،
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ،
(سُوْرَۃُ الزُّمَرِ : ۳۹، آیت : ۲۲)
جس شخص کے سینے کو اللہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے تو پھر وہ اپنے ربّ کی طرف سے روشنی پر ہوتا ہے،
آیات بالا سے ثابت ہوا کہ اسلام نورِ ہدایت ہے، یہ ہدایت اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔انسانوں کے افکار اور تصوّرات کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-
فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۝۳۸
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۳۸)
جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے انھیں (روزِ محشر) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۝۳۸
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-
قُلْ اِنَّ هُدَی اللّٰهِ هُوَ الْهُدٰی،
(سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ: ۲ ، آیت : ۱۲۰)
(اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کی ہدایت ہی (درحقیقت) ہدایت ہے،
یہ ہدایت اسلام کی صُورت میں نازل ہوئی، اس کے نازل ہونے کے بعد اب کسی اور چیز کی پیروی میں گمراہی کے سوا اور کیا مل سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے نازل کردہ قانون (یعنی اسلام) کی پیروی کو فرض کر دیا اور دوسروں کی پیروی کو حرام کر دیا۔
ارشاد باری ہے :-

اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّڪُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ،
(سُوْرَۃُ الْاَعْرَافِ: ۷، آیت : ۳ )
(اے لوگو) جو شریعت تم پر تمھارے ربّ کی طرف سے نازل ہوئی ہے (بس) اسی کی پیروی کرو، اس کے علاوہ ولیوں (وغیرہ) کی پیروی نہ کرو،
جو ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کامل کر دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :۔

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ
(سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ: ۵، آیت : ۳ )
آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو کامل کر دیا اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔
اے ایمان والو! اس آیت پر غور کیجیے، سوچیے! کہ آپ کا دین کامِل ہے یا نہیں؟ کیا اس میں کوئی کمی ہے، کیا اس میں کوئی نقص ہے؟ اگر اس دین میں کوئی کمی یا نقص ہے تو پھر دین کامِل نہیں ہو سکتا یقیناً اس دین کو آپ کامِل ہی سمجھتے ہوں گے۔ تو پھر سوچیے! کہ یہ دین کس دن کامِل ہوا تھا۔ آپ یہی کہیں گے کہ اس دن کامِل ہوا تھا جس دن مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تھی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ آیت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی وفات سے تقریباً تین۳ مہینے پہلے نازل ہوئی تھی، گویا دین اسلام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی حیاتِ طیبہ میں کا مِل ہوا تھا۔ پھر آپ سوچیے! کہ وہ کیا چیزیں تھیں جن میں یہ دین کامل ہوا تھا۔ یقیناً وہ دو۲ ہی چیزیں تھیں۔ ایک قرآن مجید، دوسری حدیث شریف۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اسلام صرف قرآن و حدیث کے اندر محفوظ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ اسلام، قرآن و حدیث کا نام ہے۔ ان ہی دو۲ چیزوں میں اسلام مکمل ہوا تھا، تیسری کوئی چیز اس دین میں نہ اس وقت شامل تھی اور نہ اب شامل ہو سکتی ہے۔ تیسری چیز اس دین میں اسی وقت شامل ہو سکتی ہے جب اس دین کو ناقص مانا جائے لیکن یہ عقیدہ قرآن مجید کے خلاف ہے لہٰذا کفر ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام کامِل دین ہے لہٰذا اب اس میں نہ کسی کے اجتہاد و قیاس کو داخل کرنے کا سوال پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کسی نیک کام کو شامل کرنے کا جو پہلے سے اس میں موجود نہ ہو۔ یعنی اسلام میں رائے اور بدعتِ حسنہ کی کوئی گنجائش نہیں۔
قارئین کرام، اسلام کو کامِل مان لینے کے بعد اب آپ ذرا اپنی حالت کا بھی جائزہ لیجیے۔ کیا آپ کا دین وہی ہے جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کا تھا۔ کیا آپ کا دین قرآن و حدیث کے اندر ہی محفوظ و محصور ہے یا قرآن و حدیث کے علاوہ بھی بعض چیزوں کو آپ نے دین شمار کر رکھا ہے۔ اگر آپ اس دین کو قرآن و حدیث کے اندر ہی محفوظ و محصور مانتے ہیں تو پھر آپ فرقوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں؟ سب کا دین ایک کیوں نہیں ہوتا؟ کیا اس کی یہ وجہ تو نہیں کہ آپ نے سرچشمۂ ہدایت سے آگے بڑھ کر کسی اور چیز کو بھی ہدایت سمجھ رکھا ہے؟ کیا یہ صحیح نہیں کہ آپ نے ائمہ اور علما کے فتووں اور اجتہادات کو بھی دین سمجھ رکھا ہے، یہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث کو ان کا تابع کر دیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے قانون کو انسانوں کی رائے کا تابع کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ کفر نہیں ہے؟
کیا آپ نے کبھی مذہبی دنیا کا جائزہ لیا، یہ تو ضرور ہے کہ بعض فرقے بعض فرقوں کو گمراہ سمجھتے ہیں لیکن بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کو حق پر سمجھتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان چار۴ یا پانچ۵ فرقوں کے فرقے وارانہ مذاہب میں سے ہر ایک اسلام ہے یا ان فرقہ وارانہ مذاہب کا مجموعہ اسلام ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسری بات کا تو آپ بڑی آسانی سے انکار کر دیں گے اس لیے کہ اس کو مان لینے کے بعد تو کسی مذہب میں بھی پورا اسلام نہیں ہوگا۔ اسلام کا ایک جز ہی ہوگا اور یہ بات کسی کو منظور نہیں ہوگی کہ وہ اپنے مذہب کو کامِل اسلام نہ سمجھے۔ رہ گئی دوسری صُورت، یعنی ان میں سے ہر ایک اسلام ہے، تو پھر ایک اور مشکل پیش آئے گی۔ وہ یہ کہ فرقہ وارانہ مذاہب میں بے حد اختلاف ہے، حلال و حرام کا فرق ہے۔ ایک ہی چیز ایک مذہب میں حلال ہے تو دوسرے میں حرام ہے۔ اور آپ کہتے ہیں کہ دونوں حق پر ہیں، یعنی دونوں فرقہ وارانہ مذہب اسلام ہیں۔ سوچیے! کیا ہر ایک کو اسلام ماننے کے بعد نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ ایک اسلام کے کئی اسلام بن جائیں گے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ صحیح صُورت ہے؟ ہرگز نہیں، ایک نَو مسلم اس بات سے کتنا پریشان ہوگا جب کہ اس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ تمام مذاہب ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہوئے بھی اسلام ہیں۔ اگر کسی مذہب میں کوئی چیز حلال ہے تو وہ بھی اسلام ہے، اگر دوسرے مذہب میں وہی چیز حرام ہے تو وہ بھی اسلام ہے۔ ایں چہ بوالعجبیت۔ اس کے مقابلے میں اگر اس نَو مسلم سے یہ کہہ دیا جائے کہ ”بس جو کچھ قرآن و حدیث میں ہے، وہ اسلام ہے“۔ تو یہ بات اس کے لیے کتنی سکون بخش ہوگی۔
قارئین کرام غور کیجیے، آخر ان مذاہب کے بنانے کی کیا ضرورت تھی، فتووں کو دین میں داخل کرنے کی کیا ضرورت تھی، کیا قرآن و حدیث میں کامل اسلام نہیں تھا۔ اگر نہیں تھا تو یہ ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اور صحابہ کرامؓ کا اسلام ناقص تھا نعوذ باللہ من ذٰلک۔ ان فتووں نے ایک اسلام کے کئی اسلام بنا دیے۔ ان کی وجہ سے امت کئی فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ اللہ اور اُس کے رسول نے جس بات کی سختی سے ممانعت کی تھی امت اسی پر کاربند ہوگئی، پھر جو نقصان ہوا وہ ظاہر و باہرہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :۔

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا،
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۰۳)
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقے فرقے نہ بنو،
اللہ کی رسی یقیناً اللہ تعالیٰ کی شریعت ہے جو اُس نے نازل فرمائی ہے اور جو ظاہر ہے کہ صرف قرآن و حدیث کے اندر محفوظ ہے، لہٰذا صرف قرآن و حدیث کو دین ماننے کے بعد ہی ہم سب ایک ہو سکتے ہیں اور فرقہ بندی سے بچ سکتے ہیں۔ اہلِ کتاب میں بھی کئی فرقے ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ان کی روش سے ہو شیار کر کے فرقے بندی کی ممانعت فرمائی تھی،
ارشاد باری ہے :-

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ،وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۝۱۰۵
(سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ: ۳ ، آیت : ۱۰۵)
اور (اے ایمان والو) تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقے فرقے بن گئے اور کھلے دلائل آجانے کے بعد بھی اختلاف پر (قائم) رہے، ایسے لوگوں کےلیے بڑا عذاب ہے۝۱۰۵
دوسری جگہ پھر اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کی غلط روش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :-
وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنَةُ۝۴ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ،حُنَفَآءَ
(سُوْرَۃُ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ۹۸، آیت : ۴ تا ۵)
اہلِ کتاب متفرّق ہوئے تھے تو کھلی دلیل کے آجانے کے بعد (متفرّق ہوئے تھے)۝۴
حالانکہ انھیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ دین کو خالص اللہ کےلیے مانتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ اللہ (اکیلے) کی عبادت کریں،
لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، علما کے فتووں اور فرقہ وارانہ مذاہب کو بھی دین سمجھتے رہے۔ اللہ تعالی کا فرمان معلوم ہو جانے کے بعد بھی اپنے اپنے علما کی باتوں پر جمے رہے، گویا انھوں نے ان علما کی عبادت کی۔ حالانکہ انھیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ اکیلے کی عبادت کریں۔ قارئین کرام سوچیے! کیا یہی صُورت موجودہ فرقوں میں نہیں پائی جاتی؟ کیا قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل مل جانے کے بعد بھی ہر فرقے کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر جمے نہیں رہتے؟ غور کیجیے! کیا یہ فعل آیت بالا کی رُو سے شرک نہیں؟ کاش! ان لوگوں میں اختلاف نہ ہوتا اور اگر ہو گیا تھا تو واضح دلیل مل جانے کے بعد اسے ختم کر دیتے، کاش! اس اختلاف کو بنیاد بنا کر فرقے نہ بناتے، اصول ایک ہی مانتے یعنی قرآن و حدیث ہی کو دین سمجھتے۔ جب آیت یا حدیث مل جاتی تو اس کی روشنی میں اپنے آپ کو موڑ لیتے، آیت یا حدیث کو نہ موڑتے، اپنے اختلاف کی خاطر قرآن و حدیث سے صرف نظر نہ کرتے۔ یہ قرآن و حدیث کو اپنے مذہب کا تابع بناتے۔ اے کاش! اگر ایسا ہوتا تو یہ فرقہ بندی کی لعنت کبھی مسلط نہ ہوتی، اللہ تعالیٰ کا راستہ ایک تھا ہم صرف اسی پر چلتے تو ایک رہتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُ،وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِڪُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ،
(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۵۳)
میرا سیدھا راستہ تو یہ ہی ہے، بس اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلنا ورنہ وہ راستے تم کو اللہ کے راستے سے علیٰحدہ کر دیں گے،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-
فَاَقِمْ وَجْهَڪَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا،
(سُوْرَۃ ُ الرُّوْمِ: ۳۰، آیت : ۳۰)
(اللہ کی) طرف رُخ کرتے ہوئے اپنے چہرے کو دین (اسلام) کےلیے سیدھا رکھیے،
یعنی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی طرف متوجّہ نہ ہو، تمھاری تمام توجّہ کا مرکز صرف اسلام ہو، صرف قرآن و حدیث پر یک سو ہو کر عمل کرو۔ فرقہ بندی سے بچو۔ فرقہ بندی بُری چیز ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :-

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ،
(سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ: ۶، آیت : ۱۵۹)
جو لوگ اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں اور فرقہ فرقہ بن جائیں آپ کا ان سے کوئی تعلّق نہیں،
فرقہ بندی اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اور یقیناً اسے ہر شخص ناپسند کر ے گا لیکن اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہی شخص جو فرقہ بندی سے بیزار ہے کیوں ان موجودہ فرقوں سے الگ نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :-

وَ اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُڪُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ اَنَا رَبُّڪُمْ فَاتَّقُوْنِ۝۵۲
(سُوْرَۃُ المُؤْمِنُوْنِ: ۲۳، آیت : ۵۲)
تمھاری جماعت بلاشبہ ایک ہی جماعت ہے (تم فرقہ فرقہ نہ بن جانا) میں تمھارا (واحد) ربّ ہوں لہٰذا مجھ سے ڈرتے رہنا۝۵۲
اللہ تعالیٰ ہم کو ایک جماعت دیکھنا چاہتا ہے تو پھر کیوں نہ ہم ایک جماعت بن جائیں۔ فرقے فرقے بنا لینا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو، ہم کو اس سے بیزار ہونا چاہیے۔
قارئین کرام، سوچیے! اختلاف اور فرقہ بندی کو ختم کرنے کی کیا صُورت ہے۔ اگر آپ سنجیدگی سے غور کریں گے تو آپ خود اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اس کی بس ایک ہی صُورت ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنا دین صرف اسلام کو مانیں، فرقہ وارانہ مذاہب سے کنارہ کش ہو جائیں۔ اسلام پر عمل کرنے کے لیے صرف قرآن و حدیث کی طرف رجوع کریں جو چیز قرآن و حدیث میں نہ ہو اس پر رائے زنی نہ کریں، نہ رائے زنی ہوگی نہ اختلافات ہوں گے۔ جماعت المسلمین یہی دعوت لے کر کھڑی ہوئی ہے۔ اٹھیے، جماعت المسلمین کی دعوت قبول کیجیے اور اس کے ساتھ تعاون فرمایے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

null

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاِمَامَھُمْ۔

رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑنا۔

(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

مرکز : جماعت المسلمین گیلان آباد، کھوکھراپار ۲,۱/۲ کراچی۔



Share This Surah, Choose Your Platform!